شہاب حمزہ
8340349807
فی الحال اس دنیا میں دو ہی چیزیں اپنے عروج پر ہیں ۔ کم و بیش جس کے احساس سے دنیا کا کوئی ملک غافل نہیں ۔ اول تو کووڈ – 19 کورونا وائرس اور دوسرا ترکی ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی ۔ کووڈ ۔ 19 کے خوف و دہشت میں تقریبا پوری دنیا مبتلا ہے ۔ دنیا کے بڑے بڑے ملک بھی اس ان دیکھی قیامت کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ ابتدائی دستک سے ہی کورونا وائرس کو عالمی وبا قرار دیا گیا ہے ۔ تمام ممالک کے ساتھ ساتھ دنیا کے ڈاکٹرز، سائنسدان، مفکر اور مذہبی پیشوا بھی اس وبا سے حیران و پریشان ہیں اور اس سے نجات کی راہیں تلاش کرنے میں ناکام بھی ۔ تقریبا پوری دنیا لاک ڈاؤن کی راہوں سے الگ الگ وقتوں پر گزرتی رہی ہے۔ کئی چھوٹی بڑی صنعتیں بند ہو چکی ہیں ۔ سڑکیں ویران ہیں تو ریلوے اسٹیشنوں میں بھی سناٹا پسرا ہے ۔ بعض ممالک میں زندگی کی خاموشیوں کو رفتار دینے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ پوری دنیا مالی دشواریوں سے دوچار ہے ۔ وطن عزیز کی جو حالت وبا کی سوسری لہر میں ہے اس کی تصویریں خون کی آنسو رلاتی ہیں اور ہمیں مزید احتیاط کی دعوت دیتی ہیں ۔ ترکی ڈرامہ ارطغرل غازی بھی ایک جامع انقلاب کی خاموش آہٹ ہے ۔ اسلامی جانبازوں کے یہ عظیم الشان کارنامے جہاں ایک طرف لوگوں کی دلوں کو جھنجھوڑ رہا ہے وہیں دوسری جانب مسلمانوں کو زندگی کی نئے احساس سے آشنا کر آرہا ہے ۔ دنیا کی تقریبا تمام خطوں میں اس ڈرامے کی دھوم ہے ۔ یہ ڈراما نئی نسلوں کے ذہن و دل پر انقلاب کا مہر لگا رہا ہے۔ نئی نسلیں اس سے اس قدر متاثر ہیں کہ ان میں نیا جذبہ دیکھا جا رہا ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ جذبہ جنون میں تبدیل ہو جائے ۔ ڈرامہ سیریل ارطغرل غازی اسلامی تاریخ کا وہ سنہرا باب ہے جو نہ صرف حق و باطل کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اسلام کی عظیم الشان تاریخ کا گواہ بھی ہے۔ میرے خیال سے یہ اس دنیا میں پہلا موقع ہے جب اتنے بڑے پیمانے پر اسلامی تاریخ کو زمانے کے سامنے ڈرامائی شکل میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ اس ڈرامے پر بھی اختلافات ہیں اور اسے مسلمانوں کے ذریعے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔ اس کے باوجود اس ڈرامے کہ جو اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ہورہے ہیں وہ یقینا اسلامی انقلاب کا شاہد ہے۔ اس ڈرامہ کے تعلق سے اب تک متعدد اخبارات اور رسائل پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے بہت ساری باتیں کہی جا چکی ہیں۔ حالانکہ ابھی بھی اسلامی تاریخ کے سنہری اوراق پر مستمل اس ڈرامے کے تعلق سے بہت سی باتیں کہی اور لکھی جانے کی گنجائش باقی ہے ۔ پھر بھی اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں کہ ڈرامہ ارطغرل غازی نے کم سے کم مسلمانوں کے ذہن کو تو ضرور متاثر کیا ہے اور اسلامیات کے سائے میں نئے سرے سے غور و فکر کی دعوت دی ہے۔
گزشتہ سال کورونا وائرس کے خطرے کو درکنار کرتے ہوئے ملک میں نمستے ٹرمپ کی کامیاب انقاد کا ڈنگا پیٹا گیا۔ تو اس کے ساتھ ہی ہاتھ جوڑ کے نمستے کرنے کے چلن پر بھی زور دیا گیا ۔ لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسپنسنگ کا اہتمام ہو رہا ہے اور جس کے تحت دو گز کی دوری کو ضروری قرار دیتے ہوئے گلے نہ ملنے اور ہاتھ نہ ملا نے کی سخت ہدایت دی جا رہی ہے ۔ اس کا شاندار فائدہ ایک بیدار قوم نے نمستے کو عام کرنے کی کوشش میں اٹھایا۔ ہاتھ جوڑ کے نمستے کرنے کے رواج کو نہ صرف ہندوستان بلکہ دیگر ممالک میں بھی اس وبائی ماحول میں خوب پسند کیا گیا ۔ اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں کہ سال گزشتہ سرکاری سطح پر اس رواج کو عام کرنے کی کوشش کی گئی ۔ یہ اچھا موقع ہاتھ لگا پوری دنیا میں ہاتھ جوڑ کر نمستے کرنے کے چلن کو پھولنے پھلنے کے لیے ۔ وبائی ماحول میں ملنے والا موقع اپنی جگہ پہ ہے لیکن ہندو سماج کے لوگوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا خوب اسشتہار کیا۔ یہی سبب ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے لوگوں نے اس طرز سلام قبول کیا اور موجودہ وبائی ماحول میں اس سے بہتر طرز سلام مانا جا رہا ہے ۔
اگر اس ماحول میں ملک کے ہندو بھائیوں کے پاس نمستے کا رواج ہے جس کا یہ مزید اشتہار کرنے پر لگے ہیں تو مسلمانوں کے پاس بھی موجود وبائی ماحول میں ارطغرل سلام رائج اور عام کرنے کی ضرورت ہے ۔
ذرا غور کریں آج مسلمان گلے ملنے اور مصافحہ کرنے سے محروم ہیں۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو کم از کم ہندوستان میں یہ غیر قانونی ہے ۔ لاک ڈاؤن میں نافذ کیا گیا قانون ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا ۔ کل عید ہے لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے تحت عید میں بھی ہم گلے ملنا تو دور مصافحہ کرنے سے بھی محروم رہ جائیں گے ۔ کیا اس وبائی ماحول میں یہ ممکن نہیں کہ ارطغرل طرز سلام کو رائج کیا جائے ۔
ورنہ کل عید میں گلے ملتے اور مصافحہ کرتے ہوئے بے شمار تصویریں میڈیا کی سرخیوں پر ہونگی جو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بدنامی کا باعث ہوگا بلکہ لاک ڈاؤن کے تحت سوشل ڈسپنسنگ کی کھلی خلاف ورزی بھی ہوگی ۔ لہذا لازمی ہے کہ وبائی ماحول میں ہم اپنی طرز سلام کو بدل لیں۔ اور میرے خیال سے ارطغرل سلام اس کا ایک بہتر بدل ہے ۔ متعدد اختلافات، تنقید اور نکتہ چینی سے بالاتر ہو کے موجودہ وبائی ماحول میں ارطغرل سلام کو اپنانے اور رائج کرنے کی ضرورت ہے ۔