منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط:6006952656
ایک انسان زندگی کے سفر میں کئی تجربات سے گزرتا ہے اور ان تجربوں سے ہی ایک بالغ زندگی قائم ہوسکتی ہے. کشمیری زبان کی ایک مشہور بات ہے کہ” ڈیڈ واننی تل چھ چرژ دزان” ایسے احساس سے میں ذاتی طور کئی بار گزر چکا ہوں. انسان کی زندگی کو مکمل شکل دینے کے لیے تربیت گاہوں کا اہم کردار ہے جہاں تربیت پاکر انسان زندگی کے ہر میدان میں خود کو خوبصورت طریقے سے پیش کرتا ہے.
اگر تربیت گاہوں کا اسقدر اہم کردار ہے تو تربیت کرنے والوں کا کتنا مقام ہے اور وہ کتنے تربیت یافتہ ہونے چاہیے تاکہ وہ قوم میں گوہر پیدا کر سکیں گے. یہ ایسی بات ہے جس کی طرف اپنے سوچ کو متحرک کرنا انتہائی ضروری ہے.اگر موجودہ دور میں تربیت گاہوں میں موجود تربیت کرنے والوں کی بات کی جائے تو ان میں اکثر ہزاروں سوالوں کے گرفت میں رہتے ہیں یعنی وہ تربیت کے بنیادی حروف سے اسقدر نافہم ہے کہ انسان کو یہ دیکھ کر فوراً علامہ اقبال رح کی بات یاد ہے.
گلہ تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
ان درس دینے والوں کو خود میں تربیت کی وہ صلاحیت پیدا کرنی چاہیے جس سے یہ قوم میں اچھی ترجمانی کا دعوا کرسکتے ہیں ورنہ ان کے اندر تربیت کی کمزوری قوم کے باحیس لوگوں کو اس فکر میں مبتلا کرتے ہیں کہ ہمیں اسکولوں کے اندر ایسے اسکول قائم کرنے چاہیے جہاں ان بیمار مغز لوگوں کی تربیت ہوجائے. ان لوگوں کو جب سنجیدہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو انسان کو احساس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے شگوفوں کو اخلاق کے کن لقموں سے توانائی دیں گے جبکہ یہ خود اخلاقی تربیت سے انتہائی کمزور ہے.
سماج کے تمام شعبوں میں کمزوریوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے لیکن جب بات تربیت گاہوں کی ہو تو ان کمزوریوں کی اطلاع کے لیے قوم کو بیدار کرنا چاہیے. اسکولوں میں ایک استاد کے لیے فقط یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کس قدر ڈگری کا مالک ہے بلکہ ان چیزوں کی بھی پیمائش ہونی چاہیے کہ یہ استاد اخلاقی اور سماجی معملوں میں کس سوچ کے مالک ہے تب ہم اس بات کی امید رکھ سکتے ہیں کہ یہ قوم میں مکمل امامت کا حق ادا کرسکتے ہیں.
اگر آپ چاہتے ہیں اس قوم کو تربیت کے اعتبار سے مکمل صحت مند بنانا ہے تواس کے لیے لازمی ہے کہ ہمیں ان تربیت گاہوں اسکولوں میں موجود استاد یا مدرسوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے کہ یہ خود کس قدر اخلاق اور ادب میں رئیس ہے ورنہ سطروں اور لفظوں کو یاد کرنے سے ہمارے شگوفے کسی عظمت کو حاصل نہیں کرسکتے ہیں.میرا ذاتی تجربہ ہے میں کئی اداروں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ وہاں کے استادوں میں اکثر کس قدر اخلاقی ناتوانی ہے کہ ان کے لہجے کا ادبی پاس ولحاظ حیران کن ہے. جن کو اس بات کا احساس نہیں کہ کس مزاج کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے کیسے سماج کے لوگوں سے بات کرنی ہے.ان اسکولوں کا منظر دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہاں ایک اور اسکول تعمیر کرنا چاہیے جہاں پر ان عقلی ناتواں انسانوں کی رہبری ہوجائے.یہ ایک ایسا سماجی مسلہ ہے جس کو کسی بھی طریقے سے نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں کیونکہ یہ تربیت سے کمزور لوگ ہمارے شگوفوں کے لیے کسی بھی حالت میں خیرخواہ نہیں ہے.