وادی کے شہرودیہات میں کوچنگ مراکز قائم کرنے کا رواج عام ہوا ہے۔اگر چہ اس کے نتائج مثبت سامنے آتے ہیں لیکن سماج میں مجموعی طور اس کے منفی اثرات ہی مرتب ہورہے ہیں کیونکہ اب بچوں کا کوچنگ سنٹروں میں داخلہ دلانا ایک فیشن بن گیا۔اب ہربچے کے والدین اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ ان کے بچے کا داخلہ اس مہنگے والے کوچنگ سنٹر میں ہونا چاہئے۔نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ اب غریب والدین اپنی زمینیں فروخت کرکے ان تمناؤں کو پورا کرتے ہیں۔
ا ن کا ارادہ نیک نیتی اورخلوص پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ بچوں کی تعلیم کا معاملہ ان کے سامنے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔لیکن جس مقصد کیلئے وہ یہ کوشش کرتے ہیں وہ مقصد کم ہی لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جبکہ س بیشتر والدین کے خواب چکناچور ہوجاتے ہیں۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ یہاں کے اسکول گذشتہ تقریباً ڈیڑھ سال سے بند پڑے ہوئے ہیں اور ان سرکاری وغیر سرکاری اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ گھروں میں آرام طلب بنے ہوئے تھے لیکن اب کوچنگ مراکز میں جانے کیلئے وہ بے تاب کیوں ہیں؟
اس معاملے میں سرکار کی پالیسی بھی حیران کن ہے۔کیونکہ اسکولوں کو نامساعد حالات یا کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے نتیجے میں بند رکھا گیا ہے لیکن ان حالات یا کورونا وائرس کا اثر کوچنگ مراکز میں دیکھنے میں کیوں نہیں ملتا ہے اور ان کوچنگ مراکز میں آسمان سے فرشتے نہیں اُتارے جاتے ہیں بلکہ وہی اساتذہ ان مراکز میں تعینات ہوتے ہیں جو اسکولوں میں درس وتدریس کے کام پر مامور رکھے ہوتے ہیں۔ زمان و مکان کی تبدیلی کا مقصد عقل وفہم سے بالاتر تو ہے لیکن اکثرحساس والدین اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھتے ہوئے عقل وخرد کا قتل کرکے رواج عام کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔
کیونکہ و ہ بچوں کو ان مراکز میں ایک فیشن کے تحت داخلہ کراتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آجکل تقابلی دور ہے اس ان مقابلوں کیلئے بچوں کو تیار کرنا لازمی بن گیا ہے لیکن اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ ہر بچے کوچنگ سنٹرمیں دھکیل دیا جائے۔یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ سرکاری وغیر سرکاری اسکولوں میں مستحکم سائنس لیبارٹیاں،لائبرریزودیگر اہم سہولیات دستیاب ہوتے ہیں جبکہ ٹیوشن سنٹروں میں اس طرح کی سہولیات کا دستیاب ہونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے جبکہ والدین کیلئے مالی استطاعت اورٹیوشن سنٹر کی حالت کو پہلے دیکھنا ناگزیر ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب بچوں کے مستقبل کو کوچنگ سنٹروں کے ساتھ ہی جوڑ دیا گیا ہے۔
مستقبل تابناک سامنے آنے کے بھی امکانات نظر آتے ہیں لیکن مجموعی طوریہ کوچنگ مراکز بے حیائی کے اڈے بھی بن گئے ہیں۔کیونکہ اسکولوں کے برعکس ان میں تہذیب وتمدن اور اخلاقی اقدار کے تحفظ کے حوالے سے کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہوتی ہے جبکہ اسکولوں میں کماحقہ‘اس معاملے کی طرف دھیان دیا جارہا ہے اورمخلوط تعلیمی نظام ہوتے ہوئے بھی ربط وضبط کو برقرار رکھا جارہاہے۔یہاں کئی کوچنگ مراکز میں ایسے بھی واقعات پیش آئے جو بہترسماج کیلئے کسی المیہ سے کم نہیں تھے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اساتذہ اپنے عظیم پیشہ کو تھامے رکھتے ہوئے اسکولوں میں فرض شناسی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی طرف توجہ مرکوز کریں اور سرکار اس معاملے پر غور کریں اور اسکولوں کوہی دانشگاہ کے طور مستحکم بنانے کی کوششیں کی جائیں تاکہ امیرزادوں کے ساتھ ساتھ غریب بچوں کا مستقبل بھی تابناک اور روشن ثابت ہوجائے۔