اردو ایک ایسی مجموعی زبان ہے کہ اس زبان نے پوری دْنیا میں شناخت قائم کی اور دْنیا کے تقریباًساٹھ فیصد ملکوں میں یہ زبان بولی جاتی ہے اور اس زبان کے ذریعے خط و کتابت کی جاتی ہے۔ اردو جو متعددملکوں کی مختلف زبانوں کے آپسی جوڑ سے معرض وجود میں آئی ہے اور دنیا کے بیشتر ملکوں میں لوگوں نے اپنی مادری زبان سے بھی اْردو زبان کو فوقیت دیکر اسکو رائج کیا کیونکہ یہ ایک ایسی مشترکہ زبان ہے۔جس میں بیشتر زبانوں جیسے ہندی،عربی،انگریزی،ملیالم، ترکی، فارسی، پنچابی،سندھی، تلگو وغیرہ کے الفاظ اس میں سمیٹے گئے ہیں۔اس لئے یہ زبان بولنی آسان ہوجاتی ہے۔
ریاست جموں وکشمیر میں فارسی کے بعد اْردو سرکاری زبان کے طور پر رائج کی گئی اور اس خطے میں عام لوگ بھی اْردو زبا ن بولتے ہیں۔لیکن عصر حاضر میں ریاست میں اْردو سرکاری زبان ہونے کے باوجود بھی سرکار کی نااہلیت اور عدم توجہی سے سرکاری ونیم سرکاری دفاتر میں اس کاجنازہ نکالا گیا ہے۔اگرچہ اب اردو کے ساتھ دیگر پانچ زبانوں کوبھی سرکاری زبان ہونے کا درجہ دیا گیا ہے تاہم انگریزی زبان کو ہر دفتر اور ہر مکتب فکر پر ترجیح دی جاتی ہے۔لیکن اردو کی طرف توجہ مرکوزنہیں کی جاتی ہے اگر چہ اْردو بچاؤ کے لئے بلند بانگ دعوے اور اعلانات کئے جارہے ہیں وہ صرف کا غذی گھوڑے دوڑانے ثابت ہورہے ہیں یہاں کے تعلیمی اداروں میں انگریزی زیادہ اور اْردو کی روایت کم ہوتی جارہی ہے۔
کیونکہ اسکولوں میں بیشتر نصابی کتابیں انگریزی زبان میں ہی پڑھائی جاتی ہیں اسی طرح سے نئی پود پر اْردو زبان کاکم اثر رہتا ہے اور یہ کہنا بھی بے جانہیں ہوگا کہ نئی نسل کو اْردو کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے اور نہ اْن میں پیوست ہورہی ہے۔سرکاری ونیم سرکاری دفاتر میں تمام دستاویزات واسناد انگریزی میں بطور ریکارڑتیار کئے جاتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ سرکاری سطح پر اْن اداروں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھاجارہا ہے جو اْردو کے نام سے موسوم ہیں جیسے کہ جموں وکشمیرمیں اْردو اخبارات کے ساتھ سرکاری طور انگریزی اخبارات کے بہ نسبت کم ترجیح دی جاتی ہے اور محکمہ اطلاعات اشتہارات ارسال کرنے میں اْردو اخبارات کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک روارکھتے ہیں۔اسی طرح اْردو زبان بالخصوص یہاں زوال پذیر ہورہی ہے حالانکہ یہی زبان یہاں کے لوگوں کی شناخت اور پہنچان ہے۔ لیکن سرکار کی عدم توجہی اور بیروکیٹوں کی خود غرضی سے یہ شناخت آہستہ آہستہ ختم ہو تی جارہی ہے۔
اب اْردو کے شیدائی اور دِلدادہ اِس زبان کی بے بسی پر رونا روتے ہیں۔کیونکہ اِس زبان میں مذہبی،دینی،ثقافتی،ماحولیاتی، اقتصادی علوم وفنون کا خزانہ موجود ہے۔اِس طرح سے یہ زبان یہاں کے عوام کیلئے ایک انمول اثاثہ اور سرمایہ ہے اِس اثاثے کوبچانے کیلئے ملکی اور ریاستی سطح پر بہت سی تنظیمیں معرض وجود میں آئی ہیں اور ان تنظیموں کے کارکنان رضاکارانہ طور اْردو کو فروغ دینے کیلئے کافی محنت ومشقت کرتے ہیں۔لیکن اِس کا اثر براہ راست سماج کے ہر طبقے پر نہیں پڑتا ہے بلکہ ایک مخصوص طبقے اِن تنظیموں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔جو اپنے طور سمیناروں،سمپوزیم،کانفرنسوں کا اہتمام کرتے ہیں اور اْردو کے زوال پذیر ہونے پر کافی افسوس کرتے ہیں۔لیکن یہ وائے ویلا کرنا یا اْردو کو بچانے پر زور دینا صرف تقاریر تک ہی محدود رہتا ہے۔
اْن تنظیموں کے رہنماؤں اور کارکنوں کے تقاریروں کے مثبت اثرات رونما نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کے بنیادی محرکات ہمارے سامنے ہیں کہ رمرکزی سرکار اْردو زبان کو سرکاری ونیم سرکار دفاتر میں لازمی بنانے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اْردو سے منسلک اداروں کو سرکار ترجیح دینے میں عدم توجہی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اْردو کو زوال پذیر ہونے سے بچانے کیلئے سرکاری طور دھیان دینے کے علاوہ انفرادی اور اجتماعی طور کام کرنا ہے۔اور ابھی وقت باقی ہے کہ اِس حوالے سے اپنی سرگرمیاں تیز کی جائیں۔