عابد حسین راتھر
ای میل: [email protected]
موبائیل نمبر : 7006569430
آجکل کے اکثر نوجوان ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں جہاں خوفِ خدا اورِ حُبِ خدا کا تصّور کم ہی پایا جاتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کو اسلام کی بنیادی تعلیم قرآن کے ذریعے سکھاتے ہے لیکن قرآن انسان کو کچھ اخلاقی اصول بھی سکھاتا ہے جن پر ایک بندئے خدا کو زندگی کے ہر موڑ پر عمل پیرا ہونا چاہیے لہذا والدین پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ان اخلاقی اصولوں سے بھی باخبر کرائے۔ اُن پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کے دل میں خدا کی محبت کے ساتھ ساتھ خدا کا خوف بھی پیدا کرے اور اُنہیں ہر وقت اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے کی تلقین کرے تاکہ وہ ہر قسم کی برائی سے محفوظ رہے۔ ایک بندے کے اخلاق و اقدار تب ہی اچھے ہو سکتے ہے جب اسکی پرورش ایسے ماحول میں ہوئی ہوگی جہاں خوف خدا ہو اور جہاں قرآن کی تعلیم عام ہو۔ اگر ایسا نہیں ہوگا تو اُسکا برتاؤ خلاف قرآن ہوگا جو اسکی دنیاوی اور اُخروی زندگی دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔
بچے کی تربیت میں سب سے پہلا کام اس کے سینے میں ایک مخلص اور دردمند دل کی تعمیر کرنا ہے۔ ایک بار جب اس کے اندر ایک مخلص دل کی بنیاد پڑتی ہے تو وہ زندگی بھر اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے پر توجہ دیتا ہے اور صحیح راہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہے۔ محبت اور اخلاص کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایک ایسا انسان جس کے دل میں محبت نہیں ہوگی کبھی مخلص نہیں ہوسکتا ہے۔ محبت، استدلال، خوفِ خدا، قرآن کے اصول کا آپس میں ایک گہرا رشتہ ہے۔ جب ایک انسان کے اندر یہ سب چیزیں پائی جاتی ہے تو اس کے دل میں ایسے اخلاق و اقدار نشونما پاتے ہے جو اسے جنت کے راستے کی طرف لے جاتے ہے۔ اُس کے قول و فعل دونوں قرآنی تعلیمات پر مبنی ہوتے ہے۔ اس کے واعظ تبلیغ کے بغیر بھی اس کا وجود ہی دوسروں کے لیے مشعل راہ ہوتا ہے۔
ایک ایسا انسان جس کے اندر خوف خدا ہو ہمیشہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کے کسی قول یا فعل سے خدا ناراض نہ ہو اور ہمیشہ اُن چیزوں سے دور رہتا ہے جو خدا کی ناراضگی کا سبب بن سکتے ہے۔ وہ ہمیشہ ایسے معاملوں میں بہت ہی حساس رہتا ہے اور ایسی راہ میں کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتا ہے۔ اس کے دل میں دنیا و مافیہا کی سبھی چیزوں سے بڑھ کر خدا کی محبت بسی ہوتی ہے اور اس کے اندر اُسکا ضمیر اسے ہمیشہ نیک راہ پر چلنے کی تلقین کرتا رہتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ آخرت کے دن جنت کی طرف لیجانے والی سب سے اہم چیز بندے کا تقویٰ ہے اور انسان کے اندر تقویٰ خدا کے خوف سے پیدا ہوتا ہے۔ یہی تقویٰ اور خوف خدا اپنے دل میں لے کے تمام پیغمبر اپنی قوموں کے لیے پیشوا بنا کے بھیجے گئے تاکہ وہ بہترین مثال بن کر اپنے لوگوں کو اللہ کی راہ دکھائے اور انکو برے کاموں سے روکے اور ان میں اچھے اخلاق و اقدار پیدا کرے۔
اگر ایک انسان میں خوف خدا نہ ہو تو وہ مغرور بن جاتا ہے۔ وہ لالچی بن جاتا ہے اور اس کے اندر تکبّر پیدا ہوتا ہے۔ ایسا انسان ہر وقت اپنے ذاتی مفاد کے بارے میں سوچتا رہتا ہے اور اس کے اندر اچھے عادات و اطوار ختم ہوجاتے ہے۔ ایسا انسان غیر مخلص بن جاتا ہے اور اس کے اندر اخلاص و اقدار کی کوئی قدر نہیں ہوتی ہے۔ خوف خدا ختم ہونے کے ساتھ ہی انسان کے اندر عاجزی ختم ہوجاتی ہے اور اس کے اندر حیوانیت جنم لیتی ہے۔ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کی اُنہیں خدا سے محبت ہے۔ لیکن صرف کہنے سے انسان کے اندر خدا کی محبت پیدا نہیں ہوتی۔ جب تک انسان کے اندر خوف خدا نہ ہو تب تک اس کے اندر خدا کی محبت نہیں ہو سکتی ہے۔ جب انسان کے اندر خدا کی محبت ختم ہوتی ہے تو اس کے اندر اُسکا ضمیر بھی مر جاتا ہے اور اس کے نیک صفات بھی ختم ہوتے ہے اور ایسا انسان ایمانِ کامل کی سطح تک نہیں پہنچ سکتا۔ خدا کا خوف ایک ایسی کنجی ہے جو انسان کے دل میں خدا کی محبت اور ایمان کا تالا کھولتی ہے۔ انسان کے اندر اگر خدا کا خوف ہوگا تو اس میں پیغمبروں جیسی عاجزی اور اخلاص پایا جاتی ہے۔
آخر میں میں یہی کہنا چاہوں گا کہ خوفِ خدا سے مطلب وہ خوف نہیں جسکا تصور ہم اکثر لوگ کرتے ہیں بلکہ اسکا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ کا وہ بندہ جس سے خوفِ خدا ہو جو حقیقت میں اللہ کی بندگی کرتا ہو جو خدا سے محبت کرتا ہوں کبھی بھی اور کسی بھی حال میں ایسا کام یا ایسا کلام نہیں کریگا جس میں خدا کی ناراضگی ہو اور جس سے خدا نے ہمیں منع کیا ہو۔ ایسا انسان ہمیشہ اس برتاؤ سے دور رہے گا جیسے اُسکا خدا اس سے ناخوش ہوگا۔ ایسا شخص ہمیشہ صبرو تحمل سے کام لیگا اور کبھی بھی شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیگا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خوف اس کے اندر ایک ایسا ایمان پیدا کرے گا کہ اس کے اندر خدا کے خوف کے علاوہ دنیا کی کسی چیز یا دنیا کے کسی شخص کا خوف نہیں رہیگا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں آیا ہے،
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡتَنۡظُرۡ نَفۡسٌ مَّا قَدَّمَتۡ لِغَدٍ ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡن۔ ( القران59:18)
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اللہ نے (اعمال کا) کیا (ذخیرہ) بھیجا ہے اور ( ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے سب اعمال سے باخبر ہے۔
مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔