تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم ہائر سکینڈری پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614
تنہا نکل پڑا ہوں میں منزل کی چاہ میں
رکھتا ہوں دل میں آرزوئے ہمسفر کہاں
گولی چلاؤ یا کہ کرو قید جیل میں
اے ظالموں تمہارا کسی کو ہے ڈر کہاں
فضیلت بیت المقدس
مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔تاجدار حرم نبی کریم ﷺ کو اسراء و معراج کے موقع پر مسجد اقصیٰ میں ہی انبیاء کرام کو امامت کرنے کا شرف عطا کیا گیا۔جیسا کہ رب العالمین کا فرمان ہے، "پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالٰی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے (سورہ الاسراء آیت نمبر 1)مسجد اقصیٰ اور اسکی گردو نواح باعث برکت ہے اور اس مقدس مسجد کو اللہ عزوجل نے اپنی نشانی قرار دی۔ معراج میں نماز کی فرضیت کے بعد 16 سے 17 ماہ تک مسلمان مسجد اقصٰی کی جانب رخ کرکے ہی نماز ادا کرتے تھے پھر تحویل قبلہ کا حکم آنے کے بعد مسلمانوں کا قبلہ خانہ کعبہ ہو گیا۔یہ مسجد مسلمان، یہودی اور مسیحیوں کے ہاں قابل احترام ہے۔ اسلامی دنیا میں مسجد الحرام اور مسجد النبوی کے ساتھ ساتھ اس کو بھی بافضیلت مساجد میں سے شمار کیا گیا ہے۔
زمانہ قدیم میں جس علاقے کو’’شام‘‘ کہاجاتاتھا، وہ لبنان ،فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل تھا،احادیث میں جس کی فضیلت ذکر فرمائی گئی ہے، اس سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء کرام کومبعوث فرمایاگیا،نیزدیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرماکر اس علاقے کو اپنامسکن بنایا۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ، ” اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراھیم کو بلادشام میں مقدس سرزمین (بیت المقدس) کی طرف ہجرت کاحکم دیا”.امام بخاری اور امام مسلم رحمہم اللہ نے اپنی اپنی صحیح میں اس روایت کو نقل کیا ہے کہ، "سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یارسول اللہ! کرۂ ارض پر سب سے پہلی مسجد کونسی تعمیر کی گئی؟آپﷺ نے فرمایا: مسجدالحرام، پھرعرض کیا دوسری کونسی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا:مسجدالاقصیٰ ،انہوں نے سوال کیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟آپﷺ نے فرمایا:چالیس سال”.(متفق علیہ) شیخین نے اس روایت کو بھی اپنی جوامع میں نقل کیا ہے کہ، "رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، "تین مساجد کے علاوہ کسی جگہ کا(زیادہ ثواب اور برکت کی نیت سے خاص) قصد کر کے سفر کرناجائز نہیں ہے، (۱)مسجد الحرام(۲)مسجد الرسول(نبوی)(۳) مسجد الاقصیٰ”.(متفق علیہ) سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی ” الصحیحہ” کے اندر نقل کیا ہے کہ، "سیدنا ابوذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک ہی مجلس میں آپس میں اس بات پر گفتگو کی کہ بیت المقدس کی مسجد(اقصیٰ) زیادہ افضل ہے یارسول اللہ ﷺ کی مسجد(نبوی)؟تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میر ی اس مسجد(نبوی) میں ایک نماز (اجروثواب کے اعتبار سے)اس (بیت المقدس ،مسجداقصیٰ) میں چار نمازوں سے زیادہ افضل ہے اور وہ( مسجداقصیٰ) نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے :ولنعم المصلٰی ہو،عنقریب ایسا وقت بھی آنیوالا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدرزمین کاایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کی زیارت کرسکے (اس کے لئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا)پوری دنیا یا فرمایا دنیاومافیھا سے زیادہ افضل ہوگا۔”(مستدرک حاکم:۸۵۵۳،صححہ ووافقہ الذھبی، السلسلۃ الصحیحۃ تحت حدیث:۲۹۰۲،طبرانی اوسط:۶۹۸۳،۸۲۳۰،شعب الایمان :۳۸۴۹،صحیح الترغیب:۱۱۷۹)
امام احمد بن شعیب نسائی رحمہ اللہ تعالیٰ اور امام ابو عبداللہ محمد بن یزید بن ماجہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنن میں اس روایت کو صحیح سند سے نقل کیا ہے کہ، "سیدناعبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ،’جب سلیمان بن داؤد بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں(۱)یا اللہ!میرے فیصلے تیرے فیصـلے کے مطابق (درست)ہوں۔(۲)یا اللہ!مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے(۳)یااللہ! جو آدمی اس مسجد (بیت المقدس)میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جناتھا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان کی پہلی دودعائیں تو قبول فرمالی ہیں(کہ ان کا ذکر توقرآن مجید میں موجود ہے)مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہوگی۔”(سنن ابن ماجہ :۱۴۰۸،سنن نسائی:۶۹۳)
نبوی ﷺ پیشن گوئیاں
قرب قیامت کے زمن میں ملک شام کے متعلق صحیح صریح روایات وارد ہوئی ہیں جن کا بیان مختصراً آرہا ہے۔
محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحہ میں اس روایت کو نقل کیا ہے کہ، "قیامت سے پہلے ایک آگ لوگوں کودھکیلتی ہوئی میدان محشر (شام) کی طرف لے کر آئے گی،وہ آگ صبح دوپہر اور شام ہر وقت ان کے ساتھ ہوگی حتی کہ وہ انہیں میدان محشرتک پہنچادے گی، شام محشر ومنشر کی سرزمین ہے۔” (السلسلۃ الصحیحۃ:۳۰۷۳) شیخین نے اس روایت کو اپنی اپنی اسناد سے بیان کیا ہے کہ، "قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیاجائے، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گاکہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے حتی کہ اگر کوئی یہودی کسی درخت یا پتھر کے پیچھے چھپے گا تو وہ بھی بول اٹھے گا کہ اے مسلمان! میرے پیچھے یہودی چھپاہوا ہے آکر اسے قتل کردو۔”(صحیح مسلم:۲۲،۲۹۲۱) امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی الصحیح کے اندر یہ روایت لائی ہے کہ، "فتنہ یاجوج وماجوج کی ہلاکت اور انتہاء بھی بیت المقدس کے قریب’’جبل الخمر‘‘ کے پا س ہوگی۔” (صحیح مسلم:۲۹۳۷) امام أبو داود سليمان بن الأشعث رحمہ اللہ اپنی سنن میں یہ روایت لائے ہیں کہ، "قیامت سے قبل مدینہ منورہ(غیرآباد)ویران ہوجائے گا اوربیت المقدس آباد ہوگا تو یہ زمانہ بڑی لڑائیوں اور فتنوں کا ہوگا، اس کے بعد دجال کا خروج ہوگا”.(ابوداؤد:۴۲۹۴) اس روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حسن قرار دیا ہے۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہی اپنی سنن کے اندر کتاب الجھاد کے تحت اس روایت کو بیان کیا ہے کہ، "فتنوں کے زمانے میں اہل اسلام کی مختلف علاقوں میں مختلف جماعتیں اور لشکرہونگے اس دور میں آپﷺ نے شام اور اہل شام کے لشکر کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی کیونکہ اس دور میں ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نےلی ہوگی”.(ابوداؤد:۲۴۸۳) اس روایت کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔قیامت سے قبل فتنوں کے ادوار میں ان علاقوں خصوصاً شام (بیت المقدس) میں رہائش اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے. (جامع ترمذی:۲۲۱۷) ( مطبوعہ دارالسلام عربی میں اس روایت کو صحیح بیان کیا گیا ہے)
اہل اسلام کا منھج
مسجد اقصیٰ اور فلسطین کی مقدس سرزمین جن حالات سے گزر رہی ہے ان میں اہل اسلام کا منھج و طریقہ کار رہے، مختصراً بیان آرہا ہے۔
(۱) مسلم حکمران آگے آئیں———————–
یاد رہے کہ یہ مسلہ فقط عرب کا نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کا ہے۔ عصر حاضر میں جہاں جہاں بھی ، مسلم حکمران اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں ان پر لازم ہے کہ ہر ممکن اقدام اٹھائیں اور ارض فلسطین کے یتیم مسلمانوں کے اوپر ہورہے ظلم و تشدد کو روکنے کہ ہر ممکن کوشش کریں۔ اس مسلے میں بعض مسلمان افراط و تفریط کے شکار ہیں۔ ایک عام مسلمان پر لازم ہے کہ وہ دعا کرے کیونکہ اسکے پاس ہتھیار دعا ہے۔ جبکہ مسلم حکمران اور انکے لشکر پر لازم ہے کہ وہ بیت المقدس کو آزاد کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ یہ کوئی سیاسی مسلہ نہیں کہ جس پر سیاست کی جاۓ، نہ ہی یہ کشمیر اور برما کا مسلہ ہے کہ زمین ٹکڑے کے لئے لڑا جاۓ بلکہ یہ ہمارے دین کا مسلہ ہے، بیت المقدس کو آزاد کرنے کے لیے اگر پوری ملت بھی شھید ہوجاۓ پھر بھی کم ہے۔ لیکن ظالم کے ظلم پر خاموشی اختیار کرنا بے غیرتی کہلاتا ہے۔عقیدہ الولاء والبراء کے تناظر میں جو بھی مسلم ظالم کے ظلم پر راضی ہے اسے چاہے کہ رجوع الی اللہ کریں۔ان نازک حالات میں بھی بعض جاہل قسم کے افراد ایک دوسرے پر فتویٰ بازی کررہے ہیں جو کہ ایک مرض ہے جس کے اندر وہ مبتلا ہوچکے ہیں۔
سڑکوں پہ ہم کو آئے مہینے گذر گئے
یہ حکمران ملنے کو آئے مگر کہاں
جھکی جو بارِ ندامت سے شاہ کی گردن
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
(۲) مسلم ملت جسم واحد ہے ——————-
اگر فلسطین کے مظلوم ظلم و تشدد، تسلط و بربریت برداشت کررہے ہیں تو ہم پر بھی لازم ہے کہ اس درد کو محسوس کریں۔ سوشل میڈیا پر بعض ایسے بھی کم عقل اپنی ناقص آراء پیش کررہے ہوتے ہیں کہ جو وطن پرستی کی نحوست میں پھنس کر ارض الانبیاء کے دفاع میں ایک حرف نہیں کہتے بلکہ وہاں کے مظلوموں کے خلاف ہی اپنی جہالت کا اظہار کررہے ہیں۔علم ہوکر بھی مخصوص اشخاص کے فتاویٰ پر عمل پیرا ہوکر خواہشات کی پیروی کررہے ہیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "مؤمن (دوسرے) مؤمن کے لیے عمارت کی مانندہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو تقویت دیتا ہے .اور آپ نے اپنی انگلیوں میں پنجہ ڈال کر بتلایا‘‘.(وسندہ صحیح) دوسری روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں کہ، "مؤمن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت ‘ اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی ایک عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو سارے جسم کو نیند نہیں آتی اور وہ بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے.‘‘(وسندہ صحیح) ایک دوسرے سے مودت اور ایک دوسرے پر رحم کرنے کے حوالے سے اس سے جامع کوئی مثال ممکن نہیں ہے کہ اگرکسی ایک عضو میں کوئی تکلیف ہے‘مثلاًآنکھ میں چبھن ہو رہی ہے‘ تو باقی جسم یہ نہیں کہے گا کہ آنکھ کو رہنے دو‘میں تو سوؤں گا‘بلکہ ایک آنکھ نہیں‘سارا جسم جاگتا ہے.اسی طرح بخار ہوتا ہے تو پورے جسم کو ہوتا ہے. کسی ایک عضو کی انفیکشن کی وجہ سے سارا جسم بخار میں مبتلا ہوتا ہے. بالکل اسی طرح اہل ایمان کا ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ جسم کی مانند ہے کہ ایک کو تکلیف ہوگی تو دوسرا بھی اس تکلیف کو محسوس کرے گا.
رسول کریم ﷺ کے ایک جامع فرمان میں بڑے عمدہ طریقہ سے اس بات کو مزید سمجھایا گیا ہے کہ، "’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے‘نہ تو اس پر ظلم کرے اور نہ اس کو ظالم کے حوالے کرے (کہ وہ اس پر ظلم کرے) .اور جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کی فکر میں ہوتا ہے تواللہ تعالیٰ اُس کی حاجت روائی کرتا ہے. اور جو شخص کسی مسلمان سے اس کی مصیبت کو دور کرے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت اس سے دور کرے گا. اور جس نے کسی مسلمان کی ستر پوشی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا.‘‘(صحیح بخاری و صحیح مسلم)
(۳) ظالم کے خلاف دعا ھلاکت————–
ظالم کے خلاف دعا ھلاکت کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔ بالخصوص جب دشمن یہود ہوں تو ان کے خلاف رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زبان مبارک سے دعاء ھلاکت کی ہے۔ نیز یہود پر اللہ کے رسول ﷺ نے کئی مرتبہ لعنت بھی کی ہے۔ یہ عین اسلام ہے۔ یہود پر اللہ عزوجل نے قرآن کے اندر لعنت کی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے کہ، "کیا تو نے نہ دیکھا ان کو جن کو ملا ہے کچھ حصہ کتاب کا جو مانتے ہیں بتوں کو اور شیطان کو اور کہتے ہیں کافروں کو کہ یہ لوگ زیادہ راہ راست پر ہیں مسلمانوں سے، یہ وہی ہیں جن پر لعنت کی ہے اللہ نے اور جس پر لعنت کرے اللہ نہ پاوے گا تو اس کا کوئی مددگار”.(سورۃ النساء) سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاز رضی اللہ تعالٰی عنہ کو جب (عامل بنا کر) یمن بھیجا۔تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایت فرمائی!کہ مظلوم کی بددعا سے ڈرتے رہنا۔کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا۔”(صحیح الجامع، صحیح الترغيب والترھیب) صحیح بخاری کے اردو شارح مولانا داؤد راز رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ، "یعنی وہ فوراً پروردیگار تک پہنچ جاتی ہے۔اور ظالم کی خرابی ہوتی ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظالم کو اسی وقت سزا ہوتی ہے۔ بلکہ اللہ پاک جس طرح چاہتا ہے ویسے حکم دیتا ہے۔کبھی فوراً سزا دیتا ہے کبھی ایک معیاد کے بعدتاکہ ظالم اور ظلم کرے۔اور خوب پھول جائے اس وقت دفعتاً وہ پکڑ لیاجاتا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو فرعون کے ظلم سے تنگ آکر بددعا کی چالیس برس کے بعد اس کا اثر ظاہر ہوا۔بحرحال ظالم کویہ خیال نہ کرنا چاییے کہ ہم نے ظلم کیا اور اس کی سزا نہ ملی۔اللہ کے ہاں انصاف کیلئے دیر تو ممکن ہے لیکن اندھیر نہیں ہے۔”
(۴)ذاتی اصلاح—————
اہل ایمان پر لازم ہے کہ موجودہ حالات میں اپنی اصلاح کرلیں۔عقائد میں اصلاح لازمی امر ہے۔ اس وقت امت کی کثیر تعداد عقیدی بگاڑ میں مبتلا ہے۔ توحید کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ شرک سے روۓ ارض کو پاک کیا جائے۔ معبودان باطلہ کی پرستش سے کنارہ کشی اختیار کی جاۓ۔نفسانی خواہشات سے آزاد ہوکر سنت کی پیروی کرنے والے بن جائیں۔بدعات و رسومات سے اجتناب کیا جائے۔ عبادات میں ہو رہے فساد کا علاج کیا جائے۔ اخلاقیات، معاملات، معشیت کو اسلام کے سپرد کردیا جائے۔حلال و حرام میں تمیز کیا جائے۔فحاشی، عریانی، بدکرداری، منشیات سے تحذیر اختیار کی جائے۔ اکل حرام سے پرہیز کیا جائے۔ تب جاکر ہماری عبادات، ہمارے دعا ہمیں اللہ کے فضل و کرم سے نفع دے سکتے ہیں۔
قرآنِ کریم یہ بتاتا ہے کہ دنیا کے نظام میں فساد اور انسانوں کو پہنچنے والی مصیبتوں کا سبب انسان کے اعمال ہوتے ہیں، جیسے ظاہری اسباب کے اثرات ہوتے ہیں جو حواس سے محسوس کیے جاتے ہیں، اسی طرح نظامِ کائنات کی اصلاح وفساد کے کچھ باطنی اور معنوی اسباب بھی ہیں، جیسے ظاہری اسباب کی وجہ سے بیماری ہوسکتی ہے، مثلاً کوئی سخت سردی میں بچاؤ کا انتظام نہ کرے تو اسے سردی سے بخار ہوسکتاہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی بھی ایک منفی تاثیر ہے، جب وہ حد سے بڑھ جاتی ہے تو اس کے مہلک اثرات ظاہر ہوتے ہیں، اور یہ اثرات قدرتِ خداوندی سے مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتے ہیں، ان کے لیے کوئی خاص صورت متعین نہیں ہے، تاہم عمومی طور پر جس قسم کی معصیت ہوتی ہے اس کی مناسبت سے ابتلا ہوتاہے، قرآنِ پاک و احادیثِ مقدسہ میں یہ بات مختلف انداز میں اور کئی مقامات پر بیان کی گئی ہے، اور جب بدعملی فرد سے تعلق رکھتی ہے اور حد سے تجاوز کرتی ہے تو تکوینی نظام کے تحت اس ایک فرد کی بھی پکڑ ہوتی ہے اور اعلانیہ یا بہت عام ہوتی ہے تو ابتلا بھی عام ہوجاتاہے، اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ انسان اپنے حقیقی معبود کی طرف رجوع کریں، اس پر ایمان لائیں، توبہ و استغفار کریں، چناں چہ بعض کے حق میں یہ ابتلا گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتی ہے، بعض کے حق میں رفعِ درجات اور بعض (جو ایمان قبول نہیں کرتے یا گناہ گار رجوع نہیں کرتے، ان) کے حق میں غضبِ خداوندی کا مظہر، اور ایک ہی واقعے سے مختلف لوگوں کے حق میں مختلف نتائج سامنے آتے ہیں، تاہم اُخروی معاملہ مصیبت میں مبتلا افراد کی نیتوں اور ان کے ذاتی اعمال کے مطابق ہوتاہے، جیساکہ احادیثِ مبارکہ میں اس کی صراحت موجود ہے.
فرمان ربانی ہے کہ، "اور تم کو (اے گناہگاروں) جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کیے ہوئے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سی تو درگزر ہی کردیتا ہے”.(القرآن) سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے موقوفا روایت آئی ہے کہ، "قسم ہے اس ذات کی کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جس شخص کو کسی لکڑی سے کوئی خراش لگتی ہے، یا کوئی رگ دھڑکتی ہے یا قدم کو لغزش ہوتی ہے، یہ سب اس کے گناہوں کے سبب سے ہوتا ہے اور ہر گناہ کی سزا اللہ تعالیٰ نہیں دیتے بلکہ جو گناہ اللہ تعالیٰ معاف کردیتے ہیں وہ ان سے بہت زیادہ ہیں جن پر کوئی سزا دی جاتی ہے۔”
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ،
"مصائب و آفات کے ذریعہ جن لوگوں کو ان کے گناہوں کی کچھ سزا دی جاتی ہے اور جن نیک لوگوں کو رفعِ درجات یا کفارۂ سیئات کے لیے بطور امتحان مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہے، ظاہری صورت ابتلا کی ایک ہی سی ہوتی ہے، ان دونوں میں فرق کیسے پہچانا جائے؟
اس کی پہچان حضرت شاہ ولی اللہ نے یہ لکھی ہے کہ جو نیک لوگ بطور ابتلا و امتحان کے گرفتار مصائب ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے قلوب کو مطمئن کردیتے ہیں اور وہ ان مصائب و آفات پر ایسے ہی راضی ہوتے ہیں جیسے بیمار کڑوی دوا یا آپریشن پر باوجود تکلیف محسوس کرنے کے راضی ہوتا ہے، بلکہ اس کے لیے مال بھی خرچ کرتا ہے، سفارشیں مہیا کرتا ہے، بخلاف ان گناہ گاروں کے جو بطور سزا مبتلا کیے جاتے ہیں، ان کی پریشانی اور جزع و فزع کی حد نہیں رہتی، بعض اوقات ناشکری، بلکہ کلمات کفر تک پہنچ جاتے ہیں۔
سیدی حکیم الامت تھانوی قدس سرہ نے ایک پہچان یہ بتلائی کہ جس مصیبت کے ساتھ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ اپنے گناہوں پر تنبہ اور توبہ و استغفار کی رغبت زیادہ ہوجائے وہ علامت اس کی ہے کہ یہ قہر نہیں، بلکہ مہر اور عنایت ہے اور جس کو یہ صورت نہ بنے، بلکہ جزع و فزع اور معاصی میں اور زیادہ انہماک بڑھ جائے وہ علامت قہر الہی اور عذاب کی ہے۔”(معارف القرآن)
(۵) غیر منھجی حرکات سے اجتناب کریں——
اولاً یہ بات یاد رہے کہ محض جذبات کا اظہار کرنے سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوگی۔سوشل میڈیا پر علماء پر تنقید کرنا آسان ہے لیکن اپنی زندگی تبدیل کرنا اصل معاملہ۔ یہ بات یقینی ہے کہ علماء ربانیین علم و حکمت کی بنیاد پر جانتے ہیں کہ امت کو کس طرف لے جانا ہے لہذا محض جذبات میں آکر کبار علماء کے خلاف زبان درازی کرنے سے رک جانا چاہیے۔ یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ عصر حاضر میں حق گو علماء کی تعداد قلیل ہے لیکن پھر بھی سارے کے سارے ایک ہی کشتی میں سوار نہیں ہیں۔فرق کو سمجھنا ہوگا۔
ایوبی سلطنت کے بانی صلاح الدین بن یوسف بن ایوب المعروف سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جب 1187ء بیت المقدس فتح کرلی تب بھی انہوں نے اہل اسلام کو باطنی و روحانی امراض سے آزاد ہونے کہ تاکید کی تھی۔ بستر میں بیٹھ کر چاۓ کا پیالہ ہاتھ میں لئے ہمدردی دکھانا اور دوسروں پر تنقید کرنا آسان ہے جبکہ شرعی احکامات، اوامر و نواھی کا خیال رکھنا اصل جہاد ہے۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب بیت المقدس فتح کرلیا تو اقصیٰ میں داخل ہوتے وقت آپ نے تاریخی الفاظ دہراۓ جو قیامت کی صبح تک یاد رکھے جائیں گے۔ "كنا أذل أمة فأعزنا الله بالإسلام، ومهما ابتغينا العزة في غيره أذلنا الله”.
” اے مسلمانوں کی جماعت! ہم ذلیل تھے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی بدولت عزت و رفعت سے نوازا، اگر ہم نے اسلام کو چھوڑ کر دیگر راہوں میں عزت تلاش کی، اللہ ہمیں پھر سے ذلیل کردے گا”.(مستدرک حاکم) اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الفاظ بھی ہمیں یاد رکھنے چاہیے کہ، "لن يصلح آخر هذه الأمة إلا بما صلح به أولها”. ” اس امت کے اواخر کی اصلاح بھی اسی طریقے سے ممکن ہے جس طریقے اور منھج سے امت کے اوائل کی اصلاح کی گئی تھی”.
مسجد اقصی تری حرمت کے ہم وارث نہیں
ہم تو بس آنسو بہانا جانتے ہیں مرگ پر
ہم ہیں متروک زماں، ہم دربدر ، ہم بے اثر
تارک قراں , زمیں کا بوجھ ہیں ہم بے بصر
(۶) اللہ کے وعدوں پر یقین کامل—————
نظام خلافت کوئی گھڑیوں کا کھیل نہیں جسے جب چاہے کھیلا جائے اور جب چاہے ترک کردیا جائے۔ نظام خلافت ہو یا اللہ کہ تائید و نصرت، دونوں اللہ کی طرف سے مشروط انعامات ہیں یعنی جب تک شرط پورے نہ ہوجائیں، مشروط چیز بھی حاصل نہیں ہوسکتی۔فرمان ربانی ہے کہ،”جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں”.(سورہ نور) اسی طرح دوسری آیت مبارکہ میں فرمایا گیا کہ، "اے اہل ایمان! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا”.(سورہ محمد) اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا گیا کہ، "ہر شخص کے آگے اور پیچھے وہ نگراں (فرشتے) مقرر ہیں جو اﷲ کے حکم سے باری باری اُس کی حفاظت کرتے ہیں ۔ یقین جانو کہ اﷲ کسی قوم کی حالت اُس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔ اور جب اﷲ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اُس کا ٹالنا ممکن نہیں ، اور ایسے لوگوں کا خود اُس کے سوا کوئی رکھوالا نہیں ہو سکتا”.(سورہ رعد)
ایک بار اور بھی بطحا سے فلسطین میں آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصیٰ تیرا
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے تسلط سے آزاد کردے۔۔۔ مسلمانوں پر ہورہے ظلم و تشدد کا خاتمہ کردے۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔