کمسن بچوں کے حفظان صحت اور تربیت کیلئے محکمہ آئی سی ڈی ایس کے تحت قائم آنگن واڑی سنٹروں کا بنیادی مقصد ہی فوت ہوچکا ہے کیونکہ ان سنٹروں میں کمسن بچوں کی تربیت اور مقوی غذاکی فراہمی کیلئے کوئی انتظام نہیں ہے جبکہ ان سنٹروں میں تعینات ورکرس و ہلپرس کو دوسرے محکموں بشمول شعبہ صحت،تعلیم،مال کے ساتھ منسلک کرکے ان کو مختلف کاموں میں مشغول رکھا جاتا ہے۔
حالانکہ ان کاموں کے ساتھ ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔اب ویکسین،زچہ بچہ کے لوازمات،مردشماری،ناخواندگی کی شرح، ادھار،الیکشن کارڈ،راشن کارڈس کیلئے فہرست تیار کرنے کے کام ان سے لئے جاتے ہیں اور کبھی ان کو اسپتالوں،اسکولوں،تعلیمی شعبہ اور مال کے مختلف دفاتر میں کام پر لگادیتے ہیں یا کبھی ان کیلئے جانکاری پروگرام منعقد جارہے ہیں۔اگر چہ تربیتی پروگراموں کا انعقاد کیا جارہا ہے تو وہ خوش آئند بات ہے۔
یہاں یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ کیا ان تربیتی پروگروموں میں ان کوبچوں کی تربیت یا ان کو مقوی غذایات کی فراہمی کے حوالے سے تربیت دی جارہی ہے؟ایسا کچھ بھی نہیں ہے! بلکہ ان کو ووٹنگ،پلس پولیو،کارڈس کی فراہمی اور دوسرے کاموں کے حوالے سے ان کومختلف قسم کی جانکاریاں فراہم کرتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر آنگن واڑی سنٹروں کو مرکزی اسکیم کے تحت اس لئے قائم کیا گیا تھا تاکہ اس اسکیم کے ذریعے کمسن بچوں کی ابتدائی تربیت کی جاسکے اور ان کو مقوی غذا فراہم کیا جائے لیکن سنٹروں میں آجکل بچوں کو فراہم کرنے کیلئے غذایات محدو کئے جاچکے ہیں اور سنٹروں میں جن بچوں کو درج رکھا گیا ہے وہ اسکولوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں کیونکہ یہاں شہر ودیہات میں چھوٹے بچوں کیلئے کریچ قائم کیا جاچکے ہیں اور والدین کمسنی میں ہی اپنے بچوں کو ان میں ڈال دیتے ہیں۔
جو بچے ان سنٹروں میں درج ہوتے ہیں ان کو سرکاری اسکولوں میں مڈ ڈے میلز کے تحت کھانا فراہم کرتے ہیں اور وہ دن بھر اسکول میں ہی رہتے ہیں ان کو آنگن واڑی سنٹروں تک جانے کا موقعہ فراہم کیسے ہوگا؟ بسا اوقات سنٹر میں تعینات ورکر اور ہلپر اثررسوخ کی بنیاد پر سنٹر کے نزدیکی ہمسایوں میں ان میں موجود اسٹاک تقسیم کرتے ہیں یا وہ مل بیٹھ کر آپس میں بانٹ دیتے ہیں اور ان سے مختلف کام لئے جاتے ہیں۔
اس طرح سے موجودہ دورمیں ان آنگن واڑی سنٹروں کا قیام ہی فضول اور بے سود ثابت ہورہاہے۔ اگر چہ پورے ملک میں اس اسکیم کو ایک اہم مقصد کیلئے متعارف کیا تھا لیکن وہ مقصد فوت ہوچکا ہے۔ آنگن واڑی ورکر یا ہلپر کا کام صرف بچوں تک ہی محدود تھا لیکن ان پر ذمہ داریوں کا اتنا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ وہ بھی پریشان ہیں اور وہ اپنا اصلی کام ہی بھول گئے ہیں۔ان کی تنخواہیں موجودہ مہنگائی کے دور میں نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن پھر بھی وہ ان کو وقت پر واگذار نہیں کی جاتی ہے۔ان سے مستقل ملازمین سے زیادہ کام لیا جاتا ہے مگر وہ مراعات فراہم نہیں کئے جاتے ہیں جس کے وہ حقدار ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سرکار ان آنگن واڑی سنٹروں کو بند کرے اور اس میں تعینات ورکرس و ہلپرس کو شعبہ صحت یا تعلیم میں منتقل کیاجائے تاکہ بچوں کے نام پر بلاوجہ کسی محکمہ کو منسلک نہ رکھا جائے اور آنگن واڑی میں بچوں کے نام پر خرچ ہونے والے رقومات کا متبادل طریقہ تلاش کرکے اسکالر شپ کی صورت میں فراہم کیا جائے تاکہ اس مرکزی اسکیم کا صحیح استعمال ہوسکے۔