معمولی بارشوں اور برفباری کے بعد قومی شاہراہ بند ہونے کی خبریں اخبارات یا میڈیا کے دوسرے ذرایع میں شہ سرخیوں کے طور پر شائع ہورہی ہے اور درا?مدگی وبرآمدگی معطل ہوجاتی ہے چونکہ پوری وادی ٹنل کے اس پار سے انڈے سے لیکر ہر شئے برآمد ہوتی ہے اور شاہراہ بند ہونے کے نتیجے میں قحط پیدا ہوجاتا ہے اور اس دوران ناجائز منافع خور اشیائے خوردنی اوردیگر اشیا ء کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے سادہ لوح عوام کو دودو ہاتھوں سے لوٹتے ہیں۔
اس حوالے سے سرکار اور متعلقہ حکام کی خاموشی سِم قاتل ثابت ہوتی ہے حالانکہ قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کیلئے باضابطہ طور محکمہ امور صارفین و عوامی تقسیم کاری کے ذمہ ہوتیہیں لیکن وہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی کچھ کرتے نہیں ہیں اس میں یا تو ان کی غفلت اور عدم توجہی کارفرما رہتی ہے یاتھوکداروں و ہول سیلروں کے ساتھ ملی بھگت کانتیجہ ہے۔
اگر کئی مقامات پر مقامی انتظامیہ چیکنگ اسکارڈ تشکیل دیکر مارکیٹ چیکنگ عمل میں لاتے ہیں تاہم وہ فضول مشق ثابت ہوتی ہے کیونکہ دکاندار قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے ہیں بلکہ من مانی قیمتوں پر خریداروں کو مجبور کرتے ہیں۔حالانکہ سرکار کی جانب سے قیمتوں کی ایک فہرست (ریٹ لسٹ) باضابط طور ہرسال مرتب کیا جاتا ہے جس میں اعلیٰ سے ادنیٰ اشیائے کی قیمتیں مقرر کی گئی ہوتی ہیں لیکن شاہراہ بند ہونے کے ساتھ ہی ان مرتب شدہ مقررہ قیمتوں کی فہرستوں کو بالائے طاق رکھ کر دکاندار عام لوگوں کو دودو ہاتھوں سے لوٹنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ گذشتہ دنوں وادی میں برفباری ہوئی جس سے جہاں بجلی وپانی کی قلت رونما ہوئی وہیں شاہراہ بند ہونے سے اشیائے خوردنی کی بر آمدگی متاثر ہوئی اور ناجائز منافع خوروں نے اپنا روایتی طریقہ کار اپناتے ہوئے صارفین کو لوٹنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر سبزی ودیگر اشیائے کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کیا۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ وادی کشمیر یا لداخ کے زمینی راستے منقطع ہونے سے درآمد گی مال میں روکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں لیکن اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے میں تھوکدار اور ذخیرہ اندوز بے لگام ہوجاتے ہیں۔
اگر چہ انتظامیہ کے افسران بھی اسی سماج کا حصہ ہیں اور وہ بخوبی واقف ہیں لیکن ان کو غریب عوام پر مہنگائی کی لٹکتی ہوئی تلوار دکھائی نہیں دے رہی ہے صاحب ثروت لوگوں کو اس کا اندازہ نہیں ہورہا ہے جبکہ غریب عوام کا اس مہنگائی اور قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ سے کمر ٹوٹ جاتا ہے۔اس دوران چیکنگ اسکارڈ یا تو غائب رہتا ہے یا تھوکداروں و ذخیرہ اندوزوں سے ملی بھگت کرکے ان کو من مانی کرنے کی ڈھیل دیتے ہیں۔
سرینگر جموں شاہراہ بند ہونا اب معمول بن گیا ہے سرکارکا اس بارے میں کیا منصوبہ ہے؟وہ اگر چہ لوگوں کے ذہن نشین نہیں ہورہا ہے تاہم زمینی سطح پر اس کا ادراک ہے۔ٹنل کے بند ہونے سے بر آمدگی کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا ہے بلکہ درآمدگی میں بھی خلل پڑ جاتا ہے اور ٹنل بند ہونے کی وجہ سے میوہ جات یا تو ٹرکوں میں درماندہ ہوکر سڑ جاتا ہے یا شیڈوں و باغات میں ہی خراب ہوجاتے ہیں۔جس سے ایک کافی اہمیت کی حامل صنعت کو نقصان ہورہا ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ گورنر انتظامیہ ٹنل بند ہونے کیفوراً بعد چیکنگ اسکارڈ کو متحرک کریں اورناجائز منافع خوروں و ذخیرہ اندوزوں کیخلاف اعلان جنگ کریں تاکہ غریب کے ساتھ انصاف ممکن ہوسکے اور جواہر لعل ٹنل کا متبادل تلاش کرنے میں رول ادا کیاجائے۔