ازقلم :مبارک لون
رسیرچ اسکالر شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
فون نمبر: – 7006760284
کسے خبر تھی کہ گریجویشن کے بعد بھی کوئی جہان آباد ہے ـ دوستوں سے پتہ چلا کہ کورس مکمل ہوتے ہی فوراً ایم – اے اینٹرنس کے امتحانات منعقد ہونے جا رہے ہیں ـ مجھے بھی اس امتحان میں حصہ لینے کا شوق پیدا ہوا ـ ایک بات آپ کو بتاتا چلوں کہ بارہویں میں میرا مضمون سائنس تھا ـ حالانکہ میں پڑھتا سائنس تھا مگر سوچتا اردو تھا ـ بارہویں کے نتائج آتے ہی میں نے سائنس سے کنارہ کر لیا اور اردو کی سمت اپنا سفر شروع کر دیا ـ بہ فضلِ اللہ ایم – اے اردو کے اینٹرنس میں مجھے کامیابی حاصل ہوئی ـ پہلی بار گھر سے دور ایک بڑے شہر میں جا کر پڑھنے کا موقع مل رہا تھا ـ میں بہت خوش تھا لیکن اس خوشی کا گلہ میرا موٹاپا گھونٹ رہا تھا ـ
حد سے زیادہ میرا وزن بڑھ جانے سے میں اپنی خود اعتمادی کو اپنے بھیتر دفن کر چکا تھا ـ اب اگر میں کسی کرامت کا منتظر تھا تو وہ موت کے سوا کچھ بھی نہ تھی ـ زندگی کے سبھی رنگ میرے لئے ماند پڑ گئے تھے ـ لیکن یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پہلے ہی دن خود کو بدلنے کی ایک لہر دل میں اٹھی ـ اس لہر کو شانت کرانے کا واحد مداوا تھا موٹاپے کا خاتمہ ـ اس کے لئے مجھے کسی ٹھوس وجہ کی تلاش تھی – اور وہ وجہ ابھی تک میری نظروں سے اوجھل تھی ـ تین سیمسٹر یوں ہی غور و فکر کرتے ہوئے بیت گئے ـ لیکن آخری سمسٹر نے خزاں کا تخت الٹ دیا ـ بہار دھیرے دھیرے اپنی باہیں میری اور پھلانے لگی ـ حالات نا ساز ہو گئے ـ میں گھر لوٹ آیا ـ رمضان المبارک کے ایام بھی بلکل قریب ہی تھے ـ میں نے شکر ، تلی ہو ئی اشیاء کے علاوہ ہر اس چیز کا بائکاٹ کر دیا جو میرے موٹاپے کو اور تقویت بخشتا تھا ـ دو ڈھائی مہینے بعد میں اپنی عمر کے مطابق صورتِ انسان میں اپنا آپ محسوس کرنے لگا ـ تقریبً چھ مہینے بعد حالات معمول پر آ گئے ـ یونیورسٹی کے در دوبارہ وا کر دئے گیا ـ
آخری سمسٹر کے امتحانات بلکل قریب تھے ـ حالانکہ ہم نے کلاس کا کبھی منہ بھی نہیں دیکھا تھا ـ جب میں یونیورسٹی لوٹ آیا تو یار دوست بھی مجھے پہچاننے میں ناکام رہے ـ تغیر نے مجھے سکون فراہم کیا ـ پہلی بار میں اندر سے خوش ہو رہا تھا ـ تین سمسٹر پہلے والے صارم کا اب یہ دوسرا جنم تھا ـ اس جنم میں صارم وہ سب کرنے کا حق رکھتا تھا جس سے وہ پورے تین سمسٹر محروم رہ گیا تھا ـ لڑکیاں جو پہلے میرے سلام تک کا جواب دینا گنوارا نہیں کرتی تھی وہ اب دوستی کا ہاتھ میری اور بڑھانے پر مجبور ہو رہی تھی ـ لڑکیوں کی صحبت زندگی میں پہلی بار مجھے میسر آ رہی تھی ـ دوستی سے آگے میں نے لڑ کیوں سے اور کوئی رشتہ اسطور نہیں کر رکھا تھا ـ لیکن مجھے کہاں معلوم تھا کہ تغیر مجھے آگے کیا گل کھلانے جا رہا ہے ـ میرے اندر کا وجود اس قدر کپکپا اٹھا جب میں نے پہلی بار ایک لڑکی کو کلاس روم کے باہر دیکھا ـ خدا جانے اس کی نگاہوں میں کیا سحر تھا کہ آج تک میں حصارِ سحر سے خود کو آزاد ہی نہیں کر پایا ـ ایک دم میرے اندر کا شاعر بیدار ہوا ـ دل سے بے ساختہ ہولے ہولے اس شعر کی گونج اٹھنے لگی ـ
کتنےچہرے تھے جہاں میں خوشنما
کتنے چہروں میں تجھے چننا پڑا
آخری سمسٹر نے آخر مجھے بھی آگ کے دریا میں غوطے کھانے کے لئے تنہا چھوڑ دیا ـ ستم یہ تھا کہ کوئی اور لڑکی میرے عشق میں پڑ گئی ـ اب وہ مجھے پانے کے لئے جتن کرنے لگی اور میں اپنے وجود تک سے بے نیاز ہو گیا ـ دوست بھی میرے ہونٹوں پہ سجی مسکان سے دھوکا کھاتے رہے اور میں اندر ہی اندر جلتا بجھتا رہا ـ اکثر ساتھی اپنے اپنے کمرے خالی کر کے گھروں کی اور روانہ ہو رہے تھے ـ ایک میں تھا جو خود تک کو بھلا بیٹھا تھا ـ آخر میں بھی گھر لوٹ آیا ـ لیکن میرے خیال اسے کلاس روم کے باہر گردش کرتے رہے جہاں ان کے ہاتھ ناکامی کے سوا کچھ بھی نہیں آیا تھا ـ ایک شب اچانک میرے نمبر پر کسی اجنبی نمبر سے کال آئی ـ
ہیلو میں نے خفتگی کو رفو کرتے ہوئے دھرایا
آپ ہیں
جی معاف کیجئے گا میں نے پہچانا نہیں
یہ مترنم آواز اسی لڑکی کی تھی جس نے مجھے اس دلدل میں دھنسانے کا بندوبست کیا تھا ـ
اتنی رات گئے آپ نے کال کیوں کی
وہ مجھے آپ سے پوچھنا تھا ــ آپ بجھے بجھے سے کیوں رہتے تھے
کیا جواب دوں میں خود سے سوال کر بیٹھا
آپ سے محبت ہو گئی تھی اسی لئے
میں نے بے ساختہ کہہ ڈالا
وہ ایک لخطے کو خاموش ہو گئی اور پھر مجھ سے اس محبت کا انجام پوچھ بیٹھی
میں نے جواباً کہا "نکاح”
میں نے اس سے اس کی رائے پوچھی تو اس نے دو دن کا وقت مانگ لیا ـ
دو دن میری حالت اور خراب ہو گئی ـ خیالوں نے وہم کے تیر برسانے شروع کر دئے اور میں لہو لہان ہوتا رہا ـ
لیکن دو دن بعد اس نے جب کال کی تو میری زبان سے سلام سے پہلے لفظ "جواب” پھوٹ پڑاـــ
اس نے ایک طویل سانس لینے کے بعد دھیمے لہجے میں شرماتے ہوئے ، گویا وہ ہواؤں کو بھی اپنے جواب سے بے خبر رکھنا چاہتی تھی ہلکے سے کہا
ٹھیک ہے میری طرف سے بھی ــــ