کالم نویس: میاں محمد یوسف
مظفرآباد
03449445709
میں نے آج ایک اہم موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور آج کل یہ عام ہو رہا ہے۔اس کو اردو میں عصمت دری یاآبرو ریزی، ہندی میں بلاتکار اور انگریزی میں ریپ کہا جاتا ہے۔ اور اس وقت یہ بہت زیادہ تیزی سے سرائیت کر رہا ہے۔اکثر سننے کو ملتا ہے کہ فلاں جگہ سات سال کی بچی کے ساتھ زیادتی کی گئی، فلاں جگہ سکول کے استاد نے طالبہ کے ساتھ ریپ کیا اور فلاں جگہ باپ نے سوتیلی بیٹی کے ساتھ ریپ کیا تو یہاں مذہب عقیدہ مسلک سے ہٹ کر رشتوں میں حیا نظر نہیں آتا اور یہ فتنہ کم ہونے کے بجائے عام ہو رہا ہے یعنی ہندو مسلم عیسائی یہودی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اجتماعی برائی ہے اور کرنے والا یہ نہیں دیکھتا جس کے ساتھ وہ یہ فعل کر رہا ہے وہ مسلمان ہے یا کسی اور مذہب سے ہے اور ویسے بھی ایسی برائیاں کرنے والوں کا کوئی مذہب اور رشتہ نہیں ہوتا کیونکہ پردہئ حیا تقریباً سارے مذاہب میں ہے اور بلکہ غیر مذہبی حلقوں میں بھی ہے تو جو لوگ اس چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہیں وہ مذہب یا رشتوں کے دعوے دار تو ہیں لیکن ہیں مذہب سے عاری اب ہم مسلمان کو ہی لیں تو مسلمان تو غیر مسلموں کی بیٹی کا حیا کرنے کا نام ہے تو اپنی بیٹیوں کی عزت سے کھیلنے والا کس طرح مسلمان کہلائے گا۔
شریعت محمدیؐ میں تو برائی کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے اور آپ اکثر سنتے ہیں کہ فلاں مدرسے کے قاری نے لڑکی کے ساتھ زیادتی کر دی تو اس کو کوئی پھر بھی عالم کہے تو میں اسے مطلق جاہل سمجھتا ہوں اور پھر ساتھ شریعت کا منکر بھی کیوں کہ اس طبقے کا مقصد تو ان فتنوں کو روکنا تھا جب سکھانے والے کا یہ عالم ہو گا تو پھر امت کی کیا حالت ہو گی اور ہم اکثر یہ کہتے ہیں کہ دین میں جبر نہیں دراصل ہم اسلام کی روح کو سمجھے ہی نہیں کسی کو زبردستی کلمہ پڑھانے کے لئے اسلام جبر کا حکم نہیں دیتا لیکن اسلام کے اندر رہ کر اس پر عمل نہ کرنے والے کے لئے جبر کا حکم ہے اس کی ایک معروف مثال کہ حکم ہے جب بچہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائے تو اس کو مار کر نماز پڑھنے کی عادت ڈالی جائے تو اسی طرح دیگر احکامات پر عمل کرانے کیلئے سزائیں مقرر کی گئیں اور اسلامی ادوار میں ان پر عملدرآمد ہوتا رہا سب سے پہلے میں عرض کروں کہ ہمارے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نجی زندگی ایک مکمل ضابطہئ حیات ہے اور نمونہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معمولات بتائے وہ صرف ہمیں سبق دینا مقصود تھا کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج حضرات صحابہ کرام اور ان کے ہر امتی کی مائیں ہیں اور ماں اپنے بیٹوں سے کیوں پردہ کرے پھر یہ وہ جنتی خواتین تھیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ جہنم کی ہوا سے بھی دور رکھے گا لیکن امت کو سبق دینا مقصود تھا تو مختلف واقعات ہیں کہ انہیں پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
اور جب تک ہم نے اس کی پاسداری کی ہم ان برائیوں سے محفوظ رہے لیکن آج ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے وہ عمل کا بس نام رہ گیا کیونکہ دین منانے کی چیز نہیں اپنانے کی چیز ہے جب جنتی خواتین جنتی مردوں میں پردہ کرتی ہیں تو ہم کس خوش فہمی میں پردے سے عاری ہو گئے اور صرف عاری نہیں شریعت تو اس حد تک ہمیں شعور سکھاتی ہے کہ میاں بیوی کا کوئی پردہ نہیں لیکن پھر بھی اگر وہ ایک دوسرے کے مخفی اعضاء کو نہ دیکھیں تو یہ افضل ہے تو ہم اس کا جائزہ لیں کہ میاں بیوی تو درکنار ہماری بہنیں اور بیٹیاں جو تنگ لباس پہن کر ہمارے سامنے آتی ہیں یہ جائز ہے گھر میں ہوتے ہوئے بھی بیوی کو اپنے خاوند کے پاس جانے سے پہلے تنگ لباس نہ پہننے کی تاکید کی گئی لیکن ہم سب اس کے خلاف نظر آتے ہیں ہماری عورتیں جو لباس پہن کر مارکیٹ میں گھومتی ہیں اس سے برائی پھیلنے کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں پھر جب اس حد تک اسلام نے حدود وضع کیں کہ جن رشتوں سے نکاح جائز ہے ان سے پردہ ضروری ہے تو پھر ہم کیوں کہیں یہ تو بھائیوں جیسا ہے اس سے کیوں پردہ کریں یاد رکھیں حیا ایمان میں سے ہے اور جب تم حیا نہ کرو پھر تم جو چاہو کرو پھر ایک اور بری عادت کہ یہ تو میرا پیر و مرشد ہے اس سے کیوں پردہ کروں جب اسلام نے پردے کا حکم دیا اور ہم اس کا انکار کریں تو پھر بے حیائی کیوں نہ پھیلے۔
اس کے بعد پھر یہ بھی ضروری ہے کہ ہماری خواتین اگر گھروں سے نکلیں تو اپنے جسم کو ڈھانپ کر نکلیں لیکن اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو ہم ان احکامات کے برعکس نظر آتے ہیں سب سے پہلا مسئلہ کہ ہماری خواتین اور بچیاں تنگ و تاریک لباس پہن کر گھر سے نکلتی ہیں اور اس کا حیا نہ ماں کو ہے نہ باپ کو نہ بھائی کو تو جب گھر سے شرم و حیا کی یہ حالت ہے تو پھر کسی سے کیا گلہ کریں ہم خود اپنی بہن بیٹی کی صورت میں دوسروں کو مائل کرنے کی دعوت دیتے ہیں کیونکہ چست لباس پہن کر جب لڑکی گھر سے نکلے گی تو مردہ دل کا بوڑھا بھی اس کے خدوخال دیکھے گا اور اس کے اندر برائی کا جذبہ پیدا ہو گا اور اس کا ذمہ دار وہ بوڑھا نہیں بلکہ وہ باپ خاوند اور بھائی ہے جس نے اس خاتون کو یہ لباس پہننے سے نہیں روکا۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک کردار اس میں میڈیا کا بھی ہے جب کسی لڑکی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہ جب میڈیا پر جاتی ہے تو میڈیا کے نمائندے اپنے چینل کی تشہیر کے لئے اس کی عزت کوعام کرتے ہیں ان کو اس سے قطعی غرض نہیں ہوتی کہ اس کو انصاف ملے وہ تو اپنے چینل کو پرموٹ کرتے ہیں۔اس سے اور برائی پھیلتی ہے اور ایک تو اس لڑکی کا پردہ فحش ہوتا ہے کیونکہ شریعت تو ایسے معاملات کو پردہ میں رکھ کر صرف متعلقہ اداروں کو اس کی سزا و جزا قائم کرنے کا پابند بناتی نظر آتی ہے مگر ہم شوق سے اس کی نمائش کرتے ہیں تو پھر یہ بھی اس برائی کو فروغ دینے کا سبب بنتا جا رہا ہے۔ کیونکہ ہمارے ملکوں میں قوانین تو ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہے تو ایک شخص کسی خاتون کے ساتھ برائی کرتا ہے اور کچھ دن شور واویلا کر کے اس پر کیس درج ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے تعلقات اور دولت کے استعمال سے بری ہوجاتا ہے تو اس سے لوگوں کو میں یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ فلاں نے کیا تھا تو اسے کچھ نہیں ہوا ہمیں بھی کچھ نہیں ہوگا اور پھر میڈیا کی کوریج سے بھی ان برائیوں کو فروغ اس ہی بنیاد پر ملتا ہے اور پھر اس کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ریڈیائی آلات ٹی وی موبائل بھی ہیں چونکہ ہمارے ہاں ان چیزوں کا استعمال تقریباً اسی فیصد غلط ہوتا ہے اب ٹی وی پر جو ڈرامے چلتے ہیں فلمیں چلتی ہیں ان میں ان برائیوں کی ترغیب دی جاتی ہے اور پھر موبائل پر ہماری خواتین کس سے بات کرتی ہیں اور انٹرنیٹ پر کیا مواد دیکھتی ہیں یہ بھی قابل غور عمل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پھر یہ ظلم کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقیات کا فقدان نظرآتا ہے کیونکہ جب کوئی خبر سنیں گے تو جب تک اس کی تشہیر نہ کریں سکون نہیں ملتا اس طرح بجائے برائی کے سدباب کے اسے فروغ ملتا ہے .
اگر زانی کو اسلامی قانون کے مطابق سنگسار کیا جائے تو زنا ختم ہو جائے گا چور کا ہاتھ کاٹ دیا جائے تو چوری ختم ہو جائے گی اور اگر ہم حکومت پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے گھر سے ان فتنوں سے بچاؤ کے لئے اسلامی تعلیمات پر از خود عمل شروع کردیں تو یہ فتنے کم ہو سکتے ہیں پھر ایک ستم یہ بھی ہے کہ ایک خاتون کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہ انصاف لینے تھانے جاتی ہے تو بجائے اسے انصاف ملے اس کے ساتھ وہ عملہ بھی ریپ کرتا ہے اور میں عرض کروں ایک کہاوت ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے اور ایک سروے کے مطابق ہمارے حکمران وزرا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہ زیادہ تر زانی اور بدکار ہیں تو ان سے ہم ان فتنوں کے سدباب کی توقع کیسے رکھیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم از خود اس کے سدباب کیلئے نکلیں کیوں کہ ایک تقابلی جائزہ لیں ایک محلے میں پانچ گھر ہیں جن میں چار پردے سے عاری اور ایک پردے پر عمل کرنے والا تو وہ مشکلات میں رہے گا یہی صورتحال آج معاشرے کی ہے اور عورت کی آزادی کا نعرہ لگا کر فحاشی کو عام کیا گیا جس کا اثر یہ ہوا کہ شریف عورتوں کا اعتماد مجروح ہوا اور ان کا گھر سے نکلنا مشکل بن گیا اور بچی سکول جاتی ہے تو ماں باپ کے دل دھڑکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے ہماری بچی کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ نہ ہو جائے جس معاشرے میں انصاف کرنے والے ہی چور ہوں تو وہاں سے انصاف کی توقع رکھنا حماقت اور خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہم اپنی بہن بیٹیوں کو پردے کی پابند بنائیں اور دوسروں کی بہن بیٹی کی عزت کرنا سیکھ لیں تو پھر ہمیں کسی کے دروازے پر انصاف کے لئے جانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
نوٹ: کالم نویس معروف ادیب اور ساہنجھی زبان وادب ادبی انجمن کے بانی صدر ہیں۔