شیخ عابد حسین
ترہگام
9906609701
اس بات سے پوری دنیا واقف ہیں کہ کورونا وائرس ایک مہلک بیماری ہے, جس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر قیامت بھرپا کر دی. یہ وہ بیماری ہے جو ملک چین سے شروع ہو کر پوری دنیا میں پھیل گئی اور آج بھی کہی ممالک میں اپنا دبدبہ برقرار رکھی ہوئی ہے. لاکھوں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا یہ ایک ایسی بیماری ہے جس نے اپنے پر پھیلاتے ہی تمام دنیا کی سائنس اور ٹیکنالوجی کو خاموش تماشائی بنا دیا. دراصل دنیا میں اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے, اللہ نے پوری دنیا کو اس مہلک بیماری میں مبتلا کر دیا. اللہ کی نافرمانی جب عروج پر پہنچتی ہے تو اللہ کی طرف سے یا تو کورونا وائرس جیسی بیماریاں پھیلتی ہے یا وہ ایسے عزابات نازل ہوتا ہے جو عزابات ہم سے پہلے والی اقوام پر آئی ہے جن کا ذکر اللہ نے قرآن شریف میں کیا ہے. اب اس عزاب سے بچنے کے لیے پوری دنیا اللہ کے اور رجوع کرنے لگی.
اس بیماری سے لڑنے کے لیے پوری دنیا نے کئی تدابیریں کیں, تاکہ اس بیماری سے نجات مل سکے.
اس مہلک بیماری کی وجہ سے پوری دنیا قریباً ایک سال تک مقفل ہو کے رہ گئی, لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے. سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر پوری طرح بند ہوگئے. پوری دنیا کا ماحول متاثر ہوگیا. ان ہی اداروں میں تعلیمی ادارے بند ہوگئے, ان تعلیمی اداروں میں ابھی بھی درس و تدریس کا سلسلہ جاری نہیں ہوا. تعلمی اداروں کے بند رہنے سے بچوں کا مستقبل خرابی کے اور جا ریا ہے جن کے مستقبل کا اندازہ لگانا اب مشکل ہوگیا ہے. دوسرے جغرافیائی علاقوں کے مقابلے میں کشمیر کی صورتحال کچھ مختلف ہوتی ہے یہاں اکثر و بیشتر حالات خراب رہتے ہے ان خراب حالاتوں میں بھی سب سے زیادہ متاثر اسکولی بچے ہوتے ہیں جو تعلیمی نظام سے بار بار دور رہ کر اپنا مستقبل کھو دیتے ہیں.
پچھلے تین سالوں کے حالات ابھی بھی ہمارے سامنے ہیں ہم خوب جانتے ہے کہ کس طرح یہاں کے حالات بد سے بدتر ہوگئے ہیں. 2019 میں دفعہ 370 ہٹنے سے پورا جموں و کشمیر بند ہوگیا. اس وقت کسی کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی. تمام سرکاری و غیر سرکاری دفاتر سرکار نے بند کروائے. اس وقت بھی بچوں کی تعلیمی نظام پر بہت برا اثر پڑا. بچے ایک سال تک گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے. کسی قسم کی تعلیمی سرگرمی ان کے لیے میسر نہیں تھی. 2020. میں کورونا وائرس کی بیماری پھوٹ پڑی. اس بیماری کی وجہ سے بھی اسکول بند رہے. بچے درس و تدریس سے محروم رہ گئے. وہی بچے بعد میں کئی غلط کاموں میں خود کو مبتلا کر گئے. ان میں کئی بچے منشیات کا شکار ہو گئے, کئیوں نے خودکشی کر لی. غرض کہ مختلف جرائموں کا شکار ہوگئے. ان خراب حالات کی وجہ سے نوجوان نسل منشیات, خودکشی اور ڈپریشن کے شکار ہو گئے.
چونکہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں. اگر کشمیر کے حوالات اسی طرح خراب ہوتے رہے, بچے تعلیمی نظام سے دور ہوگئے تو یقیناً پورے جموں و کشمیر کے بچوں کا مستقبل خراب ہوجائے گا. قوم آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے چلی جائے گی. بچوں کا روشن مستقبل ایک قوم کی ترقی کے لیے ضروری ہے, جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہے کہ کورونا وائریس جیسی مہلک بیماری نے جب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا, تو ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر مملک حیران ہوگئے. تمام دنیا کی سائنس اور ٹیکنالوجی اس بیماری کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئی. میڑیکل سائنس نے کام کرنا چھوڑ دیا. اس لیے کہ آج یعنی 21ویں صدی میں بھی کورونا وائریس جیسی بیماری کے لیے طبی سہولیات میسر نہیں ہیں.
یہ اللہ کا کرم ہے جس نے ہمیں اس مہلک بیماری سے نجات دی. لیکن اگر اسی طرح کے حالات رہے تو مستقبل کیا ہوگا ان بچوں کا جنہیں آگے چل کر اس طرح کی مہلک بیماریوں کے لیے ادویات تیار کرنی ہیں. تاکہ آنے والے وقت میں اللہ بچائے اگر اس طرح کی کوئی اور بیماری پھوٹ پڑتی ہے اس کا علاج پہلے سے تیار ہو.
غرض یہ ہے کہ اب حالات بہتری کے اور جا رہیے ہیں. اب اگر سرکاری دفاتر میں تھوڑا بہت کام کاج شروع ہوا ہے تو تعلیمی اداروں میں بھی SOP پر عمل کر کے درس و تدریس کا کام شروع کیا جائے. اسے ایک فائدہ یہ ہے کہ ایک تو بچوں کا قیمتی وقت ضائع نہ ہوجائے, دوسرا یہ کہ بچوں کا مستقبل روشن ہوجائے. لگاتار تعلیمی اداروں کا بند رہنے سے بچوں پر غلط اثرات مرتب ہوجاتے ہیں. اور وہ غیر ضروری کاموں میں خود کو مبتلا کرتے ہیں. آئے دنوں ہم خودکشی کے واقعات دیکھتے ہیں یہ اسی ماحول کا نتیجہ ہے کہ بچوں کا اسکول سے تعلق ٹوٹ چکا ہے. سرکار نے خراب حالات کد مد نظر رکھ کر آن لائن کلاس شروع کئے جو کہ ایک خوش آئند فیصلہ تھا لیکن جو ماحول بچوں کو تعلیمی اداروں میں مل رہا ہے اس ماحول سے بچے دور ہورہے ہیں. لہزا سرکار کو حالاتوں کو مدنظر رکھ کر تعلیمی اداروں میں درس و تدریس کا کام جلد از جلد شروع کرنا چاہیے. تاکہ بچوں کے لیے ایک صحیح اور سود مند ماحول پیدا ہوجائے.