وہ بچپن کے دن وہ بچپن کی یادیں
مجھے یاد آتے ہیں بچپن کے دن
وہ ننگے پاؤں بہت دور جانا
وہ گر کے سنبھل کے رونا مسکرانا
وہ کتے کے بچے کو دیکھ کر ڈرنا
پھر دوڑ کر ماں کے گلے سے لپٹنا
وہ بچپن کے دن وہ بچپن کی یادیں
مجھے یاد آتے ہیں بچپن کے دن
وہ امی کی لوری سن کر سونا
پھر سوتے سوتے سبھی کو جگانا
پھر جاگ کر ضد پر ضد کرنا
مناتے ہوئے بھی نا مان جانا
وہ بچپن کے دن وہ بچپن کی یادیں
مجھے یاد آتے ہیں بچپن کے دن
وہ ابا سے اپنے کھلونے منگانا
اور نا لانے پر بہت روٹھ جانا
پھر تتلی پکڑ کر پتنگے پکڑ کر
اسی کو کھلونے بنا کر چلانا
وہ بچپن کے دن وہ بچپن کی یادیں
مجھے یاد آتے ہیں بچپن کے دن
وہ آگ اٹھا کر ہاتھوں میں چھپانا
جلے ہاتھ جب تو زور سے چلانا
وہ سب کو منانا وہ سب کو گھمانا
چپ ہو جاؤ بچے چھوڑ بھاگ جانا
وہ بچپن کے دن وہ بچپن کی یادیں
مجھے یاد آتے ہیں بچپن کے دن
کسی کا نا سننا کسی کا نا ماننا
رکھنا جاری اپنا یہ کرنا کرانا
وہ دودھ کا لانا مٹھائی کا لانا
کھلونے دکھا کر میرا میرا دل بہلانا
وہ بچپن کے دن وہ بچپن کی یادیں
مجھے یاد آتے ہیں بچپن کے دن
وہ بچپن کے دن تھے حکومت کے دن
کسی کا نا سننا سبھی کو سنانا
خدایا لوٹا دے زبینہ کو وہ دن
جوانی سے اس کا تو دل نا لگانا
وہ بچپن کے دن وہ بچپن کی یادیں
مجھے یاد آتے ہیں بچپن کے دن
زبینہ کوثر
ریسرچ اسکالر، شعبہ عربی
بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی
+919055018959