تحریر: الطاف جمیل ندوی
دل بجھ سا گیا امید جیسے ٹوٹ گی جگر جیسے چھلنی ہوگیا ہو ہائے ہم نے تو دعائیں بھی کی تھی مفتی صاحب کی صحت یابی کے لئے پر شاید اب ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
قرب قیامت کے سبب آج نوید سحر کے ساتھ ہی نوید غم کچھ اس انداز سے سنائی دی کہ
جان جیسے حلق بھی اٹک گی ہو
دل افسردہ چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں
ہاتھ لرزیدہ تو نگاہیں نمناک ہوگی
دل امید جیسے ٹوٹ کر بکھر گئی ہو
جب سنا کہ وہ اخلاص کا پیکر
وہ سادگی و پاکیزہ مزاج صاحب فضل و کمال
وہ صاحب علم و ادب کا سنگم
وہ مفسرین قرآن کا اک گمنام مسافر
وہ داعی قرآن کہ جس کے لب پر آیات قرآنی رہتی تھی۔
اب ہم جیسے نالائق لوگوں سے بہت دور چلا گیا
ہم سب اس علم کے آفتاب و ماہتاب سے محروم ہوگئے۔ ہائے ہم اب کسے پکاریں اپنے مسائل میں کس پر وہ اعتبار کریں کہ اعتبار کرنا جہاں سعادت ہو میں نے سنا تو اس امید پر کہ خبر جھوٹی ہو کئی دوستوں کو فون کئے کہ شاید کوئی کہہ دے نہیں مفتی فیض الوحید صاحب زندہ ہیں۔ چِکر آیا تھا اب ٹھیک ہیں پر کیا کریں کہ ہر کسی نے اس غم کی تصدیق ہی کی نہیں وہ تو ہم سب کو سوگوار چھوڑ کر اپنے اسی مولا کی بارگاہ میں چلے گئے جس مولا کے نام لینے پر بولنے پر ہمیشہ ان کے چہرے پر رونق سی آتی تھی۔
آہ مفتی صاحب
اب کون ہمیں آیات قرآنی کی وہ تفسیری رموز آسان زبان میں سیکھائے گا۔
آہ رب کعبہ گواہ ہے کہ آج میں ٹوٹ گیا ہوں آپ کی جدائی سے پھر بھی اب سوائے صبر کے کیا کریں۔ ہم دل سے دعا گو ہیں کہ یاربی یاربی
ہمارے استاد جلیل صاحب علم کو اپنی رحمتوں کی آغوش میں رکھنا یارب یہ وہ گوہر نایاب ہے کہ جس کے چاہنے والے سوگوار ہوگئے ہیں۔
الہی جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما۔