بھٹ اقبال
وارپورہ سوپور
7006740967
اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے روزہ ایک رکن ہے اور ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیت قران و سنت اور اجماع سے ثابت ہے۔۔دراصل رمضان ” رمض” سے مشتق ہے جس کے معنیٰ”جلانے کے”ہے۔جس وقت روزے فرض ہو ئے اس وقت عرب میں سخت گرمی کا مہینہ تھااس لئے یہ مہینہ رمضان کے نام سے موسوم ہوا اور بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ مہینہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ چنانچہ ” غنیۃ الطالبین "میں ” شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ” رمضان کے بارے میں بحث کرتے ہوے فرماتے ہے کہ ” رمضان کے پانچ حرف ہیں،را سے مراد اللہ کی رضامندی ہے، میم سے مراداللہ کی محبت،ضاد سے مراد اللہ کی ضمانت، الف سے مر؎اد الفت اور نون سے مراد اللہ کے نور کی طرف اشارہ ہے لہٰذا رمضان المبارک اللہ کی رضامندی،محبت و الفت، اس کی ضمانت اور نور اور اس کے اولیاء وابرار کے لئے بخشش و عطیات کا مہینا ہے”۔
ماہ رمضان مسلمانوں کا "نواں "قمری مہینہ ہے اور اس مہینے میں اہل اسلام روزے رکھتے ہیں۔ روزہ کے معنیٰ "رک جانے” کے ہے۔چنانچہ اللہ تعلےٰ نے ہمیں اس مہینے میں خاص وقت کے لئے کھانے اور پینے سے منع فرمادیا۔ علامہ شوکانی ؒ فرماتے ہیں "روزہ لغت میں رک جانا اور شریعت میں مخصوص شرائط کے ساتھ ایک مخصوص وقت میں مخصوص طور پر رک جانا اور ماہ رمضان کے روزے ۲ھ میں فرض ہوئے”۔رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں نو(۹) سال رمضان کے روزے رکھے۔ رمضان کے روزے ہر مسلمان عاقل،بالغ، تندرست اور مقیم پر فرض ہے۔
چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تبارک وتعلےٰ کا ارشادہے۔
یٰآیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (سورۃ البقرۃ:۳۸۱)
ٓ (اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم بچ جاؤ۔)
اس ایت کی تفسیر میں ابن کثیرؒ فرماتے ہے "اللہ تعا لیٰ اس امت کے ایمان داروں کو مخاطب کرکے انہیں حکم دے رہاہے کہ روزے رکھو۔ روزہ کے معنی اللہ تعالیٰ کے فرمان کی بجا آوری کی خالص نیت کے ساتھ کھانے پینے اور جماع سے رک جانے کے ہیں۔اس سے فائدہ یہ ہے کہ نفس پاک صاف اور طیب و طاہر ہو جاتاہے،ردی اخلاط اور واہی اخلاق سے انسان بچ جاتا ہے۔اس حکم کے ساتھ ہی فرماتاہے کہ اس حکم کے ساتھ تم تنہا نہیں بلکہ تم سے اگلوں کو بھی روزوں کا حکم تھا۔اس بیان سے یہ بھی مقصد ہے کہ یہ امت اس فریضہ کی بجا آوری میں اگلی امتوں سے پیچھے نہ رہ جائے”۔
ماہ رمضان کے با برکت مہینے میں قرآن پاک کا نزول بھی ہوا ہے جو لوگوں کے لئے سراسر ہدایت ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتاہے۔
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (سورۃ البقرۃ: ۵۸۱)
(رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لئے سراسر ہدآیت ہے (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے)
چنانچہ اس آیت سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس با برکت مہینے میں حق اور باطل میں فرق کرنے والی کتاب یعنی قرآن شریف نازل ہوئی ہے۔قرآن کریم کا نزول ماہ رمضان کی بابرکت رات یعنی لیلۃالقدر میں ہوئی۔چناچہ اللہ تعلی کا ارشاد ہے:بلاشبہ ہم نے اسے قدر کی رات میں نازل فرمایا۔ (سورۃالقدر:۱)
اس آیت کی تفسیر میں ابو نعمان سیف اللہ خالدلکھتے ہے کہ ماہ رمضان کو قرآن شریف کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔اس میں کثرت کے ساتھ قرآن کی تلاوت اور قیام ہونا چاہیے۔رسول اللہﷺرمضان میں ہر رات حضرت جبریل ؑ کے ساتھ قرآن مجید کا دورہ کیا کرتے تھے۔صحابہ کرام اور سلف صالحین کے عمل سے بھی رمضان میں قرآن سے خصوصی شغف ثابت ہے۔
(دعوت القرآن۔۔۔ جلد1،صفحہ243-44)
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ابن آدم کا ہر عمل اس کے لئے ہے سوائے روزے کے،روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا اور روزہ(آگ سے)ڈھال ہے۔لہٰذا جس روز تم میں سے کسی کا روزہ ہو اس روز وہ فحش گوئی نہ کرے اور بے ہودہ کلام نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے گالی گلوچ کرے،یا لڑائی کر ے تو روزہ دار کو صرف اتنا کہنا چاہیے میں روزہ دار ہوں،اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو قیامت کے دن اللہ تعلی کو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسند ہوگی۔روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں۔ ایک جب وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور دوسری جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے کا ثواب پاکر خوش ہوگا”۔ (بخاری،کتاب الصوم::(1904
روزوں کے بارے میں ایک اورمشہور حدیث سیدنا ابو ہریرہ سے ہی مرفوعاً مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔” جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہواس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کے روزے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رکھے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔”
(بخاری،کتاب الصوم::(1901
چنانچہ روزوں کی وجہ سے جو فضیلت ماہ رمضان کے مہینے کی ہے وہ فضیلت سال کے کسی اور مہینے کی نہیں ہیں کیونکہ اس مہینے میں جنت کے دروازے زمین والوں کے لئے کھول دئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور جنّات کو زنجہروں سے جکڑ دیا جاتاہیں۔اس مہینے میں آسمان کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور رحمت و مغفرت کی برسات ہوتی ہے۔اعمال صالح میں کثرت اور گناہوں میں کمی ہوتی ہے۔تلاوت قرآن،ذکروازکاراور مجلس تبلیغ اس مہینے میں ہر جگہ ہوتی ہیں۔اس مہینے میں ہر مسلمان اللہ وحدہ لاشریک سے سربسجود ہوکراپنے گناہوں کی بخشش کے لئے دعاومناجات کرتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں۔جنت کا سوال کرتے ہیں اور جہنم سے پناہ مانگتے ہیں۔تمام مہینوں میں رمضان کی اہمت اس طرح سے ہیں جس طرح جسم میں دل کی اہمت ہے،مخلوق میں انبیاء کی ہے اور شہروں میں حرم شریف کی ہے۔ اب جس شخص کی زندگی میں ماہ رمضان کا مہینا آیا لیکن وہ اس میں اپنی بخشش نہ کرآسکاوہ آگ میں جائے گااور اس کے لئے ہلاکت و بربادی ہے۔اس لئے اس با برکت مہینے میں ہمیں اللہ تعلی سے زیادہ سے زیادہ فریاد کرنی ہوگی اور اپنے گناہوں سے بخشش کا ہمیشہ طلب گار رہنا چاہیے۔
جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق انسان کے جسم پر سال بھر میں ایک وقت ضرور ایسا آتا چاہیے جس میں انسان کا معدہ کچھ دیر فارغ رہے۔ کیونکہ مسلسل کھاتے رہنے سے معدے میں مختلف قسم کی رطوبتیں پیدا ہو جاتی ہے جو رفتہ رفتہ زہر کی شکل اختیار کر لیتی ہے لیکن روزے سے یہ رطوبتیں اور ان سے پیدا ہونے والی کئی مہلک بیماریاں ختم ہو جاتی ہیں اور معدے کا نظام پہلے سے قوی تر ہو جاتا ہے۔ روزہ جہاں انسان کے جسم کو توانائی بخشتا ہے وہاں انسان کی بے شمار معاشی پرشانیاں بھی دور ہوتی ہیں اور مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ کا کہنا ہے کہ "روزے سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا کلی خاتمہ ہو جا تا ہے۔”
انسان ہر عبادت اپنے لئے کرتا ہے اس لئے اس عبادت میں کچھ ریاء بھی آسکتا ہیں لیکن روزہ انسان محض اللہ کی رضا کے لئے رکھتا ہے اسلئے اس میں ریاء نام کی چیز ہوتی ہی نہیں ہیں۔اللہ تبارک و تعلےٰ فرماتا ہے کہ انسان روزہ صرف میری رضا کے لئے رکھتا ہے تو اس کا اجر بھی میں ہی دوں گا۔روزہ دار کے لئے آخرت میں جنت میں جانے کے لئے ایک الگ دروازے سے داخلہ ملے گا جس کا نام "ریان” ہیں آواز آے گی کہ اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی اندر جاسکتے ہیں اور جب سب روزے دار جنت میں داخل ہو جاینگے تو اس دروازے کو بند کیا جائے گا۔ روزے کے بے شمار فائدے دینا میں بھی ہیں اور آخرت میں بھی ہیں
روزوں کااصل اور بنیادی مقصد ہی پرہیزگاری حاصل کر نا ہے۔روزوں کا مہینا ہمارے لئے عملی دور ہوتا ہے کہ جو کام ہم اس مہینے میں کرتے ہیں ان کاموں پرہمیں زندگی بھر رہنا ہوگا۔ روزہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کے شکر کا ایک وسیلہ ہے۔ روزہ ہمیں اس ایمان و یقین پر تیار کرنا چاہیے کہ اللہ پاک ہر وقت اور ہر جگہ ہماری نگرانی کر رہا ہے اس مہینے میں جب ہمیں بھوک ستاتی ہیں، تب جا کے ہمیں اس غریب کادرد محسوس ہوگا۔جس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتاہے۔ اللہ تعلی کو ہمارے فاقہ رکھنے سے کچھ نہیں چاہیے بلکہ اصل میں اللہ پاک کو ہماری فرمان برداری دیکھنی ہیں کہ کون میرے حکم کی تعمیل کرتا ہیں اور کون نہیں۔اللہ تبا رک و تعلی ہمیں اپنی فرمانبرداری کی توفیق عطا فرمائے۔آمین