دنیا کی محبت میں تنہا ہوا جاتا ہوں
اللہ کی محبت کا ثانی نہیں کوئی اور۔
(سفیہ)
اگر ہم اس بات پر غور کرے کہ دنیا کیا ہے؟ کیا دنیا ہمیشہ رہنے کی جگہ ہے؟ کیا دنیا لذتوں کا نام ہے؟ کیا دنیا کبھی ختم نہیں ہوگی؟ کیا دنیا ہمارے عیش و عشرت کا سامان ہے؟ کیا ہم دنیا میں اپنی مرضی کے مطابق رہ سکتے ہیں؟ ان سب سوالوں پر اگر ہم غور کریں گے تو ہمیں اسکا جواب نہیں ملے گا۔ اگر دنیا عیش و عشرت، آرام اور ہمیشہ کی جگہ نہیں ہے تو پھر اس دنیا کی حقیقت کیا ہے۔ یہ دنیا کیوں بنائی گئی، اسکا اصل مقصد کیا ہے۔ تو اسکا جواب ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حدیث شریف سے ملتا ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اور کافر کے لئے جنت۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق یہ دنیا ایک مسلمان کے لئے قید خانہ ہونا چاہئے۔ جس طرح ایک شخص قید خانے میں کسی دوسرے کے حکم کا محتاج ہوتا ہے وہاں وہ قیدی کسی اور کی نگرانی میں ہوتاہے اور ہمیشہ اسکو یہ خوف لاحق ہوتاہے کہ اگر میں کوئی غلطی کرؤں گا تو مجھے سزا دی جائے گی اور اسی خوف سے وہ غلطیوں سے بچا رہتا ہے اور وہ اپنی مرضی سے کچھہ نہیں کرسکتا اسی طرح ایک مومن کو ہونا چاہیے۔ جو ہر کام اپنے مالک کی مرضی کے مطابق کرے ناکہ اپنی مرضی کا مالک ہو اور ایک مومن کو ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت دل میں ہونی چاہیے۔
ایک مومن کے دل میں جتنی محبت اللہ تعالیٰ کی ہوگئی اتنا ہی اسکا خوف بھی ہوگا کیونکہ ایک انسان کو جس سے جتنی محبت ہوگی اتنا ہی وہ اسکی ناراضگی سے خوف کھاتا ہے اور اس کو خوش کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اسی لیے ایک مومن کے دل میں جتنی محبت اللہ تعالیٰ کی ہوگئی اتنا ہی اسکا ایمان مضبوط ہوگا اور جس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہوگئی اس میں کسی اور چیز کی محبت کبھی نہیں ہوسکتی۔ اگر مسلمان کے دل میں دنیا کی محبت ہوں تو اس میں اللہ تعالیٰ کی محبت نہیں آسکتی، اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا ہے:
حب الدنیا رأس کل خطیٔہ
دنیا کی محبت ہر گناہ اور معصیت کی جڑ ہے۔
جتنے بھی جرائم اور گناہ ہیں اگر انسان ان کی حقیقت میں غور کریں گا تو اسکو یہی نظر آۓ گا کہ ان سب میں دنیا کی محبت کار فرما ہے۔ چور کیوں چوری کر رہا ہے؟ اسلۓ کہ دنیا کی محبت اسکے دل میں سمایئ ہے۔ اگر کوئی شخص بدکاری کر رہا ہے، تو کیوں کر رہا ہے، اسی لیے کہ دنیا کی لذتوں کی محبت دل میں جمی ہوئی ہے۔ شرابی اسلۓ شراب نوشی کر رہا ہے کہ وہ دنیاوی لذتوں کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ اگر ہم کسی بھی گناہ کو لینگے، اسکے پیچھے دنیا کی محبت کار فرما نظر آۓ گی اور جب دنیا کی محبت دل میں سمائی ہوئی ہے تو پھر اس دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کیسے داخل ہوسکتی ہے۔ ایک اور روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
کہ دنیا ایک مردار جانور کی طرح ہے، اور اس کے پیچھے لگنے والے کتوں کی طرح۔
اس حدیث میں دنیا کو مردار سے تشبیہ دی گئی ہے۔اس بات سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی کیا قیمت ہے اور ایک مومن کے لئے اس دنیا کی کیا اہمیت ہونی چاہیے۔ ایک اور جگہ کہا گیا ہے کہ دنیا کی مثال ساۓ کی طرح ہے، اگر انسان ساۓ سے منہ موڑ کر اس کے مخالف سمت میں دوڑے گا تو وہ سایہ اس کے پیچھے چلے گا۔
غرض کہ دنیا کو ایک حقیر سے حقیر تر چیز کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ لیکن پھر بھی آج کل یہی حقیر تر دنیا ہر ایک کے دل میں اسطرح گھر کر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا بھی وقت نہیں ہے کسی کے پاس۔ صبح سے لے کر شام تک دنیا کے سوا کوئی خیال ہمارے دل و دماغ میں آتا ہی نہیں ہیں۔ صبح سے لے کر شام تک اسی بات کی فکر میں لگے رہتے ہے کہ ہماری دنیا کیسے کامیاب ہوگی۔ دن رات اسی پریشانی میں مگن رہتے ہیں کہ فلاں شخص کے پاس ایسا بنگلہ ہے میرے پاس بھی ہونا چاہیے، فلاں شخص کے پاس ایسی گاڑی ہے میرے پاس بھی ہونی چاہیے۔ فلاں فلاں چیزیں ہونی چاہیے، کروڑوں میں پیسے ہونے چاہئیں بس اسی پریشانی میں ہماری ساری زندگی نکل جاتی ہے اور پھر جب اللہ تعالٰی سے ملاقات کا وقت قریب آتا ہے تب ہمیں یاد آتا ہے کہ ہم تو خالی ہاتھ ہے۔ ہم اس گھر کے لئے مال جمع کرتے ہیں جس میں ہم چند دنوں کے مہمان ہیں اور ہم اس گھر کو بھول جاتے ہیں جس میں ہمیں ہمیشہ رہنا ہیں۔
ہمیں ہر لمحہ یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ ہمارے فلاں بینک ایکونٹ میں کتنے پیسے ہے فلاں میں کتنے کیا ہم نے اس بات پر غور کیا ہے کہ ہماری نیکیوں کا ایکونٹ کتنا برا ہے اور ہماری بدیوں کا ایکونٹ کہا تک برا ہے۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ ہم سے دنیا کے مال ودولت کے بارے میں نہیں پوچھے گا کہ کتنا جمع کیا بلکہ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ بتا کہ دنیا میں تو نے میرے لئے کیا کیا؟ کیا فائدہ اس کمایٔ کا جو آخرت میں ہمارے کام نہ آئے گی۔
دنیا کے بڑے بڑے مالدار لوگ قیامت کے دن اتنا غریب ہونگے کہ اگر وہ اس دن کسی کے سامنے بھیک بھی مانگے گے تو انکو کوئی بھیک دینے والا بھی نہیں ہوگا۔ دنیاوی کاموں کے لئے تو کبھی کبھار ہم رشوت بھی دے دیتےہیں لیکن اس دن کوئی رشوت بھی نہیں دے پاۓ گا۔
اگر ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاک زندگیوں کا مطالعہ کریں گے تو ہمیں پتا چلے گا کہ کن مشکلات اور سختیوں میں انہوں نے اپنی زندگیاں گزاری ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو پیٹ پر پتھر باندھ کر چلتے تھے، کیوں؟ وہ تو اپنے رب کے حبیب تھے مگر ان صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں دنیا کی محبت نہیں تھی۔ اور ہم اللہ تعالی کی اتنی نعمتوں کے بعد بھی انکے ناشکرے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شکوے شکایتیں کرنا ہمارا معمول بن گیا ہیں۔ کیونکہ ہمارے دلوں میں دنیا کی محبت بس چکی ہیں۔
ایک اور مثال میں دنیا کو بیت الخلاء سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح ایک مکان میں ایک بیت الخلاء ہوتاہے۔ بیت الخلاء میں داخل ہونا انسان کی وقتی ضرورت ہوتی ہے مگر انسان ہمیشہ وہاں نہیں رہ سکتا۔ اپنی ضرورت پوری ہوتے ہی انسان وہاں سے فارغ ہوتاہے۔ اسی طرح ایک انسان اس دنیا میں وقتی ہے اور اپنا وقت مکمل ہوتے ہی انسان یہاں سے نکل جاتاہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دنیا میں اس طرح محنت کرو جیسے تمہیں ہمیشہ یہی رہنا ہے اور آخرت کی فکر اس طرح کرو جیسے ابھی جانا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے کہ میں جیو تو غریبوں میں جیو اور اس دنیا سے رخصت ہوجاؤ تو غریب بن کر رخصت ہوجاؤ اور رب العزت مجھے قیامت میں اٹھاۓ تو غریبوں میں اٹھاۓ۔ وہ تو دو جہانوں کے سردار ہے رب العزت سے کچھہ بھی مانگ سکتے تھے لیکن انہوں نے یہ سب اسی لیے مانگا کیونکہ ان کو پتہ ہے آخرت میں حساب دینا ہے۔ اور ہم اپنی حالت دیکھے تو اٹھتے دنیا، بیٹھتے دنیا، سوتے دنیا، جاگتے دنیا۔ جتنی فکر ہمیں دنیا کی ہے کاش آخرت کی ہوتی۔
دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں۔
سفیہ یوسف
طالبہ جامعہ البنات
[email protected]