عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور‘ کشمیر
8825090545
ای میل:[email protected]
سورہ آلِ عمران کی ایک آ ٰیت یوں ہے ۔
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللہ َ فَا تَّبِعُو نِیْ یُحْبِبْکُمُ اللہ ُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُ نُو بَکُمْ وَ ا للہ ُ غُفُوْ رٌرَّ حِیْمَ
”کہہ دیجیے اے (نبیﷺ لوگوں سے) کہ اگر تم اللہ سے محبت کر تے ہو تو میری پیروی اختیار کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخش نے والا رحم کرنے والا ہے ،،
(آیت نمبر۔۔۔۱۳) ِ ِ راست آیا ہے جبکہ رسو ل اللہؐ کے لیے بالواستہ طور پر ا ِس کا ذکر آیا ہے۔
غور کر لیجیے کہ اللہ تعلی کی ذات سے محبت قایئم کر نے کے لئے رسول اللہ ؐ کی پیروی کو شرط ِ اول قرار دیا گیا ہے۔اور رسول اللہؐ کی پیروی جب ہی ممکن ہے کہ آپؐ کا حُب بھی دل میں موجود ہو۔جس درجہ رسولؐ کی محبت دل میں ہوگی اُسی درجہ آپؐ کی سنتوں پر انسان عامل بھی ہوگا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ انسان کو اللہ کی رضا حاصل ہوجایے گی۔
غیر قرآنی اصطلاح: ہمارے یہاں اکثر لوگ حُب کی جگہ ”عشق“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں‘اور ا ِ س کے تعلق سے آج کل ”عشقِ رسولؐ“ کی جو اصطلاح مستعمل ہے اس کے متعلق عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ”عشقِ رسولؐ“کی یہ اصطلاح قرآن میں کہیں آئی ہے اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں اِس کا ذکر ملتا ہے۔اصل حقیقت تو یہ ہے کہ یہ اصطلاح غیر قرآنی اصطلاح ہے۔ جو قرآن و سنت سے صرف ِ نظر اُن صدہا اصطلاحات کی طرح چند خارجی قوتوں سے وجود میں آئی ہے کہ جنہوں نے امتِ مسلمہ کا بیڑا غرق کر رکھا ہے۔
عشق کا لفظ اگر چہ عربیئ الاصل ہے اور عربی زبان میں مستعمل بھی ہے تاہم اللہ اور رسول اللہؐ کی ذات کے حوالے سے قرآن و حدیث میں اِس کا استعمال کہیں نہیں ملتا جس کی وجہ واضح ہے کہ عربی زبان کے اندر عشق کا لفظ قبل از نکاح جنسی تعلق کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ایک ناپاک اور شیطانی فعل ہے۔مشہور اسلامی مورخ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادیؒ رقمطراز ہیں:
”عرب جاہلیت میں پردہ کا مطلق رواج نہ تھا اِن کی عورتیں آزادانہ مردوں کے سامنے آتی تھیں۔مشاغل اور ضروریاتِ زندگی کمی‘آزاد مزاجی
اورشاعری و مفاخرت نیز ملک کی گرم آب و ہوا نے یہ مرض (عشق بازی) بھی اِن میں پیدا کردیا تھا۔اِن میں وہ آدمی کمینہ اور ذلیل سمجھا جاتا تھا
جس کو کسی عورت سے کبھی عشق پیدا نہ ہوا ہو۔عرب کے بعض قبا یل اپنی عشق بازی کی وجہ سے مشہور تھے۔ مثلاً بنی عذرہ کے عشق کی یہاں تک شہرت تھی کہ
”اَعْشُ مِنْ بَنِیْ عَذْ رَۃَ“ کی مثل مشہور ہے۔یعنی فلاں شخص بنی عذرۃ سے بھی زیادہ عشق مزاج ہے“۔
تاریخِ اسلام۔جلد۔۔۱
صفحہ نمبر۔۔۔۱۷
اب اندازہ لر لیجیے کہ ایسا ناپاک لفظ رسول اللہؐ کی پاک اور مقدس ذاتِ اطہر کے ساتھ جوڑنا کس درجہ کا بے ہودہ عمل اور گمراہی ہے۔ اللہ ہمیں اِس سے رجوع کرنے کی توفیق عطا فرماے ئ۔(آمین)
مخلوقات کی سطح پر محبت کی مستحق ذات:اِس میں دو راے ئ نہیں کہ اللہ تعلی کی ذاتِ بابرکات کے بعد رسولِ اطہر‘ نبی ئ امی حضرت محمدِ عربیؐ کی پاک و مقدس ذات ہی تمام مخلوقاتِ خدا میں سب سے زیادہ تعریف اور محبت کی مستحق ہے۔چنانچہ آپؐ نے خود ارشاد فرمایا ہے۔
لَاْ یُو ْمِن ُ َ اَحَدُکُمَْ حَتّی اَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْھِ مِنْ وَالِدِہ ِوَوَلَدِہ ِ وَالنَّاسَِ اَجْمََعِیْنَ
یعنی تم میں سے کویئ شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اُس کے والدین اور اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اِس کے دل میں میری (رسول اللہؐ کی) کی محبت نہ ہو(صحیح بخاری۔۵۱)۔مگر اِس کے باوجود بھی انسان کے لے ئ اِس کے رَبّ کی طرف سے ایک حد مقرر کر دی گیئ ہے۔ وہ یہ کہ مخلوقات کی سطح پر سب سے زیادہ محبت رسول اللہ ؐ کے ساتھ رلھی جاے ئ اور مخلوقات کی سطح سے بالا تر ہستی اللہ تعلی کہ ہستی ہے جو عرش پر مستوی ہے‘ جو اپنی ذاتِ بابرکات کے ساتھ ساتھ اپنی تمام تر صفات میں واحد اور لاشریک ہے‘ جس کا کویئ کفو ہے اور نہ کویئ نِد۔جس کے ساتھ اول درجے کی محبت رکھی جاے ئ اور دوسرے درجے رسولؐ کی محبت۔
اللہ کا کویئ مدِ مقابل نہیں:ہمارے ہاں اکثر حضرات جذبات کی رَو میں بہہ کر اس حد سے تجاوز کرتے ہیں اور پھر اِس درجہ کی مبالغہ آرایئ پر اُتر آتے ہیں کہ رسولؐ کی ذات کو اللہ کی ذات کے عین مد مقابل لاکر کھڑا کر دیتے ہیں اور ستم ظریفی یہ کہ اپنی اِس رَوش کو حِب رسولؐ کا نام دیتے ہیں۔اور اِس معاملے شعراء حضرات سب سے آگے ہیں جن کے یہاں ایسا نعتیہ کلام تخلیق کیا جاتا ہے جو اکثر حد درجہ مبالغہ آرایئ پر مبنی سر تا سر شرک اور کفر میں غوطہ زن ہوتا ہے۔چنانچہ رَبّ اور رسولؐ کی ذات کا اختلاط (God Incarnation) والا تصور بھی بنیادی طور پر شاعروں کے ذریعے ہی سے پھیلا ہے۔
محمد بن عبدالوہب ؒ اپنی تصنیف ”کتابِ توحید“ میں رقنطراز ہیں کہ کچھ صحابیٰؓکہا کرتے تھے ” مَاشَاءَ اللہ ُ وَ مَا شِتَ“ یعنی جو اللہ چاہے اور جو آپؐ چاہیں۔ اس پر رسول اللہ ؐ خبردار کرتے ہوے ئ ان سے مخاطب ہوے ئ ”اَجَعَلْتَنِیْ لِلہِّ نِدََ؟مَا شَاءَ اللہ ُ وَحْدَہٗ“ کیا تم نے مجھے اللہ کا نِد(مدِمقابل) ٹھرایاجبکہ اللہ واحد ہے اور وہی ہوگا جو بس اللہ چاہے۔چنانچہ اللہ تعلی بطورِ انتباہ (warning) ارشاد فرماتے ہیں ”ہر گز نہ ٹھراو ئ اللہ کے مدِ مقابل جانتے بوجھتے“ (بقرہ۔۔۲۲)۔ یاد رکھنا چاہیے ئ مخلوقات کی سطح پر نبی یا رسول سب سے عظیم صفات کا حامل ضرور ہوتا ہے۔مگر خالق تو مخلوقات کی سطح سے پرے ایک ہستی کا نام ہے جو ہمارے تخیل اور تصور سے ماوری ٰ ہستی ہے۔لہذا ربّ اور رسول کی ذات کا اختلاط سراسر شرک اور کفر ہے۔اور اِس چیز کو حبِ رسولؐ کا نام دینا تو قطعی طور پر جا یئز نہیں بلکہ حقیقت میں یہ نری جاہلت اور لاعلمی کی علامت ہے۔
رسولؐ کی محبت ایمان میں داخل ہے:امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری ”کتاب الایمان“ میں ”حُبُّ الرَّ سُوْلِ مِنَ الْاِیْمَانَ“ کے زیرِ عنوان ایک باب باندھا ہے۔ یعنی رسولؐ کی محبت رکھنا ایمان میں داخل ہے۔ گویا کہ ہمارا ایمان مکمل ہے ہی نہیں جب تک کہ ہمارے دل میں رسولؐ کی محبت نہ ہو۔اِس سے آپ خود اندازہ کر لیجیے کہ حبِ رسولؐ کی دینِ اسلام میں کیا اہمیت اور افادیت ہے۔ مگر مسلہ یہ ہے کہ ہم کس چیز کو حب ِرسولؐ کا نام دیں اور اِس کی بنیاد کیا ہو؟
اِس ضمن میں سب سے پہلے جو چیز انسان کے مدِ نظر رہنی چاہیے ئ وہ یہ کہ محض زبان سے رسولؐ کی محبت کا دعویٰ نہ کیا جاے ئ بلکہ عمل سے اِس کا ثبوت بھی فراہم کیاجاے ئ۔اور عمل کو ہی رسولؐ کے تئین محبت کی بنیاد بھی بنایا جاے ئ۔ ورنہ حبِ رسولؐ کا دعوی ٰ کرنا بے سود ہے۔ یہاں یہ بات بھی عرض کرتاچلوں کہ عمل کا فہم صحا بیٰ ٰؓ سے لیا جاے ئ ‘کیونکہ رسول اللہﷺ کے احکامات کی تعمیل کرنے والے سب سے پہلے وہی لوگ تھے‘ اور رسول اللہ ؐ کی صحبت میں رہکر تمام صحابیٰ ؓعلم اور عمل کے ایسے نمونے بن کر اُٹھے کہ ایک حدیث میں اِن کو چمکتے تاروں کے مانند گردانا گیا ہے۔عمل سے متعلق علامہ اقبالؒ کا ایک فارسی شعر میرے ذہن میں گردش کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں۔ ؎
لذتِ ایماں فزاید در عمل
مردہ آں ایماں کہ ناید در عمل
یعنی عمل کے ذریعے سے ا یمان کی لذت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ ایمان مردہ ہے جس پر عمل نہ کیا جاے ئ۔
دوسری چیز جو حبِ رسولؐ کے تعلق سے انسان کے ذہن میں رہنی چاہیے ئ وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ؐ کے احکامات اور فرامین پر عمل پیرا ہوتے وقت انسان کے زیر ِ نظر خالص وہی طریقہ رہے‘ جو طریقہ ا صحابِ رسولؐ اور آحضرت ﷺ نے خود اختیار کیا ہو۔اِس کو ایک حدیث کی روشنی میں سمجھییئ جو صحیح بخاری کی کتاب النکاح میں آیئ ہے۔ اور اِس حدیث کو حضرت انس بن مالک ؓ نے روایت کیا ہے۔
سنت سے بے رغبتی: حدیث اگر چہ کچھ زیادہ طویل نہیں ہے تاہم میں حدیث کے وہی الفاظ یہاں کوٹ کرتا ہوں جو موضوع کے ساتھ گہری مناسبت رکھتے۔ حضورﷺ فرماتے ہیں۔
فَمَنْ رَ غِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ
یعنی جس کسی نے بھی میرے طریقے (سنت) سے بے رغبتی کی‘ وہ مجھ میں سے نہیں یا میری امت میں سے نہیں۔یہ بے رغبتی کیا ہے؟ اِس کو یوں سمجھییئ کہ رسول اللہ ؐ جب کسی کام کا حکم دیتے تھے آپؐ کے صحابیٰ ؓ اِس حکم کی تعمیل کرتے‘ اُس کے بعد آنحضرت ﷺ کی طرف سے طریقہ بھی دکھایا جاتا کہ کس حکم پر کیونکر عمل کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ حکمِ رسولؐ کے ساتھ ساتھ رسولؐ کا دکھایا ہوا طریقہ بھی سامنے ہو‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم حکم کی تعمیل تو کر تے ہوں مگر طریقہ نبیؐ کا نہ ہو۔ اگر ایسا ہے تو اِسی کو بے رغبتی کہا جاے ئ گا۔جس سے متعلق رسول اللہ ﷺ کا ارشاد اوپر مذکور حدیث میں آپ ملاحظہ کر چکے ہیں۔