عاجز ایِثار
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر کشمیر
احمد گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ بیوی نے آکر کہا، احمد کیا بات ہے کہاں کھوئے ہوئے ہوں ۔احمد اچانک سے چونک گیا کچھ بھی تو نہیں میں بس سلمیٰ بیٹی کا سوچ رہا تھا ۔سلمیٰ کی عمر بھی آگئی اب بالغ بھی ہوچکی ہے اور یہی سوچ رہا تھا کہ سلمیٰ کے ہاتھ اب پیلے کر دینے چاہیے ! یہ سارا گفتگو اطراف میں وہی بیٹھا سلمیٰ کا چچیرا بھائی سلیم بھی سنُ رہا تھا ۔ جس کی عمر اس وقت پندرہ، سولہ برس کی ہوگی۔ چونکہ سلیم کو سلمیٰ سے لگاو تھا سلیم،کو سلمیٰ بہت پسند تھی اور دل ہی دل میں اسُ کو بہت چاہتا تھا اور اسکو سلمیٰ سے یکطرفہ محبت ہوچکی تھی
چچا احمد کی باتیں سنُ کر سلیم حیرت میں پڑھ گیا اور خوفزدہ ہو گیا کہ کہیں سلمیٰ ہاتھ سے نکل نہ جائے، اس نے اب پکہ ارادہ کیا کہ سلمیٰ سے اب بات کرنی چاہیے ۔
سلمیٰ اپنے والدین کی نیک سیرت اور صالح اولاد تھی اسکے والدین کا فیصلہ سلمیٰ کا فیصلہ تھا اسی لیے سلمیٰ پر، سلیم کے اظہار محبت کا کوئی اثر نہیں ہوا اور سلیم کو نادان سمجھ کر سلیم کی بات کو رد کر کے ٹال دیا ۔
کچھ وقت گزرنے کے بعد سلمیٰ کی شادی طے کر دی گئی اور شادی کا دن مقرر ہوا گھر میں خوشیوں کا ماحول تھا اور سلیم وہی دل کا غمزدہ اور محبت کا دیوانہ صبر کرکے چپ پڑا تھا ۔ آخر شادی کا دن آہی گیا ۔دلہن کو ہاتھوں میں مہندی لگا دی گئی، خوشگوار ماحول میں دلہن کی سہیلیاں شادی کے گیت گنگنانے میں مست و مسرور ہیں ۔ دلہن پھولوں کے سیج پر دلہے کا منتظر تھی، ہر ایک شخص بارات کے انتظار میں مگن تھے، آخر انتظار، انتظار ہی رہا وقت گزرتا گیا لیکن بارات نہیں آئی۔ نصب شب کو اطلاع ملی کہ بارات نہیں آیی گی دلہے کو دلہن پسند نہیں ہے!
ہر طرف سناٹا چھا گیا، خوشیوں پر پانی پھیر گئ، ہو بہ ہو مچ گئی، جیسے بجلی کڑکی سب کے پیروں تلے زمین کھسک گئی ۔۔۔۔۔
احمد نے جیسے ہی یہ دلدوز خبر سنی وہ زمین پر گر گیا اور نمناک آنکھوں سے چلا چلا کر زوردار اور ہیبت ناک آواز دے رہا تھا کہ میں تباہ و برباد ہو گیا ہوں، اب میری بیٹی سے کون شادی کرے گا، اب کون اپناے گا سلمیٰ بیٹی کو، میری شہزادی ہاے میرے لال ۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ہوگیا
سلیم بھی وہی سارا منظر دیکھ رہا تھا اب سلیم اور زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہونے لگا لیکن اسی ک ساتھ ہی سلیم کی امید رنگ لائی اور وہ دہراتا ہے،، وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے، وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہ۔۔۔۔۔
سلیم یہی فقرہ دہراتے ہوے جزباتوں میں آکر چچا احمد سے مخاطب ہوا،، چچا جان بارات نہیں آیی تو کیا ہوا، سلمیٰ کی شادی ہوگی، آج ہی ہوگی شادی، عین اسی وقت ہوگی، میں کروں گا سلمیٰ سے شادی، میں اپناو گا سلمیٰ کو چچا میں سلمیٰ کو بہت محبت دوں گا خوش رکھو گا، میں کروں گا شادی، میں کروں گا شادی، میں میں ۔۔۔۔
سلیم کی ماں نے سلیم کو روکا، منہ بند کیا، یہ کیا بولے جارہے ہوں آپ ہوش میں تو ہو خود کی عمر تو دیکھو اسُ کو تو اس کے ہونے والے شوہر نے نہیں اپنایا تم کیوں اپناو گے ۔؟
ماں کی انتھک کوشش ناکام رہی سلیم کی محبت اور جنون دیوانگی نے کسی کی بھی نہیں سُنی، بالآخر ٹوٹتی سلمیٰ نے بھی سلیم کو قبول کیا اور دونوں کے درمیان قبول، قبول کی آوازیں گونجنے لگے اور دونوں کی شادی ہوگئ۔