تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم ہائرسکیندڑی پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614
انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے
توکل کی تعریف
مفسر قرآن سیدنا فخرالدین رازی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی جامع تفسیر کے اندر رقمطراز ہیں کہ، "ہیں:توکُّل کا یہ معنیٰ نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں کو بے کار چھوڑ دے جیساکہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکُّل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اسباب پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اللہ تعالیٰ کی نُصْرت، اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسہ کرے۔” (تفسیر کبیر) توکل کہ یہ شرح قرآن و سنت کے صریح نصوص سے ثابت ہے۔ جہاں آج ہر معاملے میں افراط و تفریط دیکھنے کو ملتی ہے وہیں توکل کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں بھی اکثر لوگ خطا کرجاتے ہیں۔بالکل اسی طرح جس طرح تقدیر کے معنیٰ کو سمجھنے میں لوگ غلطی کر جاتے ہیں۔ عصر حاضر میں بھی عوام الناس کی ایک بڑی تعداد جبریہ اور وہ قدریہ کے عقیدہ پر گامزن ہے لیکن وہ اپنی اس خطا پر غفلت کے شکار ہیں۔
شیخ مشتاق احمد کریمی رقمطراز ہیں کہ، "اللہ پر توکل ایمان کی روح اور توحید کی بنیاد ہے، اسباب اختیار کرکے نتیجہ اللہ پر چھوڑنے کا نام توکل ہے، بعض حضرات ہاتھ پر ہاتھ دھرے اسباب اختیار کئے بغیر اللہ پر توکل کرتے ہیں وہ سخت غلطی پر ہیں، اس قسم کے توکل کا شریعت نے حکم نہیں دیا ہے، قرآن میں ایسی تعلیم ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ایسی کوئی تعلیم دی ہے۔ اس بات پر قرآنی آیات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ائمہ عظام اور سلف صالحین امت کے واقعات شاہد عدل ہیں”.یہ بات بھی واضح رہے کہ اسباب وہاں اختیار کئے جائیں گے جہاں ممکن ہو اور جہاں اسباب اختیار کرنے کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو، وہاں یہ شرط ساقط ہوجاتی ہے یعنی وہاں اسباب اختیار کئے بغیر ہی کلی طور پر اللہ پر توکل کیا جائے گا جیسا کہ حافظ ابن ابی الدنیا، امام ابو نعیم، حافظ ابن رجب حنبلی و دیگر اسلاف کی کتب سے واضح ہے۔
اصحاب توکل پر دنیاوی انعام
(۱) حفاظت ربانی—
دشمن کتنا بھی شاطر اور چالاک کیوں نہ ہو، اللہ تعالیٰ کی تدابیر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اللہ عزوجل شہنشاہ اعظم، مالک الملک ہے۔ توکل کے بنیادی فوائد میں یہ بھی ہے کہ اللہ عزوجل آپ کو دشمن کے مقابلے میں امان عطا کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نجد کی طرف غزوہ ذات الرقاع سے واپس آرہے تھے کہ ایک جھاڑی والی وادی میں دوپہر کو قیلولہ کے لئے اترے، جس کو جہاں جگہ ملی ادھر ادھر آرام کرنے لگے، آپ بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے سوگئے اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکادی، جب سارے لوگ سوگئے تو بے خبری میں موقع کو غنیمت جان کر ایک مشرک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور درخت سے تلوار اتار کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہوگیا ، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی، اس کافر نےبڑے تکبر سے کہا:اے محمد! آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے اطمینان وسکون سے جواب دیا،’اللہ۔ یہ سننا تھا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئ، آپ نے اٹھالی اور اس کافر سے فرمایا: اب بتاؤ تم کو مجھ سے کون سکتا ہے؟ اس نے کہا: کوئی نہیں! آپ نے اسے معاف کردیا اور اسے چھوڑ دیا۔” (بخاری، 3822)
(۲) بےروزگاری سے نجات—
بے روزگاری عصر حاضر کے جدید مسائل میں عظیم ترین مسئلہ ہے۔ خودکشی کی شرح بڑھتی چلی جارہی ہے۔نوجوان ملت گزشتہ تین سالوں سے ذہنی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ملک ہندوستان بالخصوص وادی کشمیر کے اندر corruption اپنے عروج پر ہے۔ رشوت لینے اور دینے کے عمل نے پورے system کو کھوکھلا کردیا ہے۔ جاہل اور جعلی ڈگریوں کے حاملین اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جبکہ تعلیم یافتہ طبقہ بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ راقم اپنے قلم کے ذریعے ارباب اقتدار تک یہ بات پہنچا رہا ہے کہ جو بھی افراد corruption جیسے نجس فعل کا ارتکاب کر رہے ہیں انہیں عبرت کا نشانہ بنایا جائے۔ قابل قدر لیفٹیننٹ گورنر صاحب (LG of UT jammu and Kashmir) سے ہم التماس کرتے ہیں کہ نوجوانوں میں خودکشی و دیگر جرائم کی بڑھتی شرح کو مدنظر رکھ کر اصل معاملہ کی طرف التفات کیا جائے۔
راقم نوجوان ملت کو اس حقیقت سے آشنا کرانا چاہتا ہے کہ اسلاف کی سیرت کو پڑھ کر اسی ولولہ اور جوش کو زندہ کیا جائے جس سے انہوں نے عرب و عجم پر راج کرکے دکھایا۔کب تک ہم قانونی داؤ پیج کا شکار ہوتے رہیں گے، یہاں پورا جسم ہی زخمی ہے، ادنیٰ جھاڑو دینے والے سے لیکر اعلیٰ افسران ایک ہی مرض بد میں مبتلا ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ ہم محنت، اجتہاد، اتحاد و اتفاق سے کام لیکر رب پر توکل کرکے میدان فتح کرلیں۔ امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا،”لو انکم کنتم توکلون علی اللہ حق توکلہ لرزقتم کما یرزق الطیر، تغدو خماصا و تروح بطانا ".’اگر تم لوگ اللہ تعالی پر ایسا توکل کرو جیسا کہ اس کا حق ہے تو تمہیں اسی طرح رزق ملے، جیسے ایک پرندہ کو رزق ملتا ہے، صبح خالی پیٹ نکلتا ہے اور شام کو پیٹ بھر کر واپس آتا ہے’۔
(جامع ترمذی) علامہ مناوی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتا ہوں کہ، "کسب ومحنت سے روزی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ اللہ تعالی کے رزق عطا کرنے سے ہی روزی ملتی ہے، اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ توکل بیکاری اور محنت چوری کا نام نہیں ہے، بلکہ اس میں سبب اختیار کرنا ضروری ہے، کیونکہ پرندوں کو طلب اور محنت کرنے سے روزی دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر امام احمد فرماتے ہیں: یہ حدیث اس بات پر دلیل نہیں ہے کہ کسب اور جدوجہد ترک کردیا جائے، بلکہ یہ اس امر پر دلیل ہے کی رزق کی طلب اور اس کے لئے جدوجہد کی جائے”۔
(۳) فتنوں سے نجات —
فتنہ کہتے ہیں ایسی آزمائش کو جو انسان کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاۓ، اور بہنے والے کو غرق ہونے تک اپنی ہلاکت کی خبر نہ لگے۔ مثلاً انسان دنیاوی آلام و مصائب سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے خودکشی کا راستہ اختیار کرتا ہے اس خیال میں کہ مجھے سکون قلب حاصل ہوگا لیکن درحقیقت ایسی منفی سوچ رکھنے والے افراد اپنی عقبیٰ کی فکر نہیں کرتے جہاں ابدی حیات کا دوام بشر کو حاصل ہے۔آگے کے نتائج نظر انداز کرکے اجلت پسندی میں خود کو موت کے حوالے کرنا انتہائی بیوقوفی ہے۔ اسی طرح عارضی سکون حاصل کرنے کے خاطر نوجوان ملت منشیات کا استعمال کرتے ہیں۔ (Drug addiction) وقتی اطمنان کی خاطر پوری زندگی کو جہنم بنانا کہاں کی عقلمندی ہے؟ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر اشخاص اپنی دولت و سرمایہ کا ناجائز فائدہ اٹھا کر معاشرے کو زہر آلود کر رہے ہیں۔ کسی غریب باپ کی غریب بیٹی کی عفت و عصمت کا سودا چند ہزار میں کیا جاتا ہے۔اور وادی میں ایسے معاملات آۓ روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دینے والے غرباء کے بچوں کو "child labour” کے دلدل میں غرق کر دیتے ہیں اور اس طرح ان کا وجود سپرد خاک ہو جاتا ہے۔
وادی کشمیر محبت و الفت، ہمدردی و اخوت کی زندہ مثال تھی لیکن آج یہی کشمیر جرائم کا مرکز بنا ہوا ہے۔ فتنے جس قدر بھی سنگین ہو، توکل علی اللہ آپکی حفاظت کرے گا۔ سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا،”مجھے کیسے خوشی ہو حالانکہ صور والے فرشتے نے صور لیا اور وہ کان لگائے اس انتظار میں ہے کہ کب اسے پھونکنے کا حکم ہوتا ہے تاکہ وہ پھونکے۔ یہ بات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر گراں گزری تو آپ ﷺ نے فرمایا،تم کہو اللہ تعالیٰ ہمیں کافی ہے اور بہتر کارساز ہے اور ہم نے اللہ ہی پر بھروسہ کیا۔‘‘(جامع ترمذی)
(۴) کردار کی حفاظت—
طبی امراض سے زیادہ مہلک روحانی امراض ہوتے ہیں جو انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہے ہوتے ہیں۔عصر حاضر کے روحانی امراض میں فحاشی، عریانی، چست لباس کی زینت، اجسام کی نمائش، ناجائز تعلقات، حرام دولت کی نجاست، سودی کاروبار میں اضافہ، حسد، بغض، عداوت، سحر و جادو وغیرہ شامل ہیں۔ روحانی امراض سے مراد ایسے امراض جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتے ہیں اور انسان نفس کی غلامی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ روحانی امراض سے اولاً ظاہری نشونما بھی بگڑ جاتی ہے، انسان کے چہرے سے نورانی کیفیت غائب ہو جاتی ہے، جسم اپنی وقت گنوا بیٹھتا ہے، مخلوق کی نفرت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
صورت کے ساتھ ساتھ سیرت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس پرفتن ماحول میں توکل وہ نسخہ کیمیا ہے جو یہاں بھی آپکو اپنی حفاظت میں رکھے گا۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جب آدمی اپنے گھر سے نکلا اور اس نے کہا : ’’بِسْمِ اللهِ، تَوَکَّلْتُ عَلَی اللهِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ‘‘ ۔ ‘اللہ کے نام کے ساتھ، میں نے اللہ پر بھروسہ کیا، نہ طاقت ہے اور نہ قوت مگر اللہ کے ساتھ’۔ فرمایا کہ اس وقت اس سے کہا جاتا ہے کہ تو ہدایت دیا گیا، تیری طرف سے کفایت کی گئی اور تجھے بچایا لیا گیا۔ پس شیطان اس سے دور ہو جاتا ہے اور دوسرا شیطان کہتا ہے کہ تو اس آدمی کا کیا بگاڑ سکے گا جس کو ہدایت دی گئی، جس کی طرف سے کفایت کی گئی اور جس کو بچا لیا گیا۔” (جامع ترمذی)
(۵) حصول عزت، حصول قوت —
دنیا میں ہر کوئی چاہتا ہے کہ اس کے پاس عزت ہو، عافیت ہو، صحت و قوت ہو۔ خصوصاً اہل کشمیر کی بات کی جاۓ تو پوری دنیا واقف ہیں کہ کس طرح ہماری پہچان کو چھینا گیا۔اہل باطل کھلونوں کی طرح ہمارے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ وقت وقت پر باطل نے ہمیں اپنے مکرو فریب اور دھوکہ کا شکار بنایا۔ لیکن حیرانگی اس بات کی ہے کہ ہم اب بھی اپنی حرکات سے باز نہیں آتے۔جتنا ہم پر ظلم ہوتا ہے اتنے ہی ہم سرکش بنتے چلے جارہے ہیں۔ یہ بھی عذاب الہی ہےجس کا ہمیں شعور نہیں۔اس ذلت، پستی، دھتکار اور پھٹکار سے بچنے کے لئے ہمیں توکل علی اللہ، جذبہ خودی اپنے نفوس میں پیدا کرنی ہوگی۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالٰی کے کتاب الزھد میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے کہ، "جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ طاقتور ہو تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے، اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ معزز ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرے، اور جو یہ پسند کرتا ہو کہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ بے نیاز ہو تو وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ رزق پر کفایت کرے۔‘‘(وسندہ صحیح)
وکل کے اخروی فوائد
(۱)حصول زھد —
زھد کہتے ہیں دنیا میں رہ کر آخرت کو ترجیح دینا۔ حصول زھد میں انسان کی انفرادی زندگی، معاشی زندگی و دیگر احوال شریعت کے حدود میں بسر ہوتے ہیں اور اس طرح انسان آخرت کے انعامات سے سرفراز ہوگا۔ امام ابو نعیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الحلیتہ میں یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ، "لوگوں نے زہد کو کتابوں میں تلاش کیا حالانکہ زہد کی حقیقت تو توکل میں مضمر ہے کاش انہیں اس بات کا علم ہوتا”.
(۲) قربت الہی—
حافظ سلمی رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب طبقات الصوفیہ میں سیدنا ابو تراب رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ، "اللہ تک پہنچانے والے سترہ درجات ہیں ان میں سے سب سے چھوٹا درجہ اجابت (مان لینے کا) ہے اور سب سے اعلیٰ درجہ حقیقتاً اللہ تعالیٰ پر توکل اختیار کرنا ہے”.اللہ عزوجل نے ہمیں صلاحیتوں سے نوازا ہے، آخر کیوں اور کب تک ہم اغیار کے سامنے جھولی پھیلا کر خود کو رسوا کرتے رہیں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو، اپنے ہنر کو دنیا کے سامنے لائیں۔
(۳) حصول صبر —
راقم کا خیال یہ ہے کہ تقاریر سن کر یا وعظ و نصیحت کرنے یا کتب بینی کرکے بھی انسان تب تک صبر کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتا جب تک انسان اپنے آپ کو اور اپنے معاملات کو اللہ عزوجل کے سپرد نہ کردے۔آخرت کی کامیابی کے لئے صبر لازمی ہے لیکن توکل کے بغیر یہ بھی حاصل نہیں ہوسکتا۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معروف کتاب مدارج السالکین کے اندر بشر حافی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ، "لوگوں میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا، وہ اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھتا ہے، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا ہوتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہر فعل پر راضی ہوتا۔”
(۴) بغیر حساب حصول جنت —
فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے، یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ غیر شرعی جھاڑ پھونک کرتے ہیں، نہ بد شگونی لیتے ہیں اور اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں”.(صحیح بخاری وغیرہ)
صفات متوکلین
سلف صالحین سے منقول ہے کہ، "توکل مومنین کا خاصہ ہے اور تسلیم اولیاء کا، تفویض موحدین کا، لهٰذا توکل عوام کی صفت ٹھہری، تسلیم خواص کی اور تفویض خواص الخواص کی”.اسی طرح بعض اسلاف فرمایا کرتے تھے کہ، "توکل نبی اکرم ﷺ کا حال تھا اور کسب آپ ﷺ کی سنت ہے، جو حضورنبی اکرم ﷺ کے حال پر رہے، اسے آپ ﷺ کی سنت کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔‘‘علامہ قشیری رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب ” الرسالہ ” میں سہل بن عبداللہ رحمہ اللہ تعالٰی کا قول نقل کیا ہے کہ، "توکل کا پہلا مرتبہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے ایسے ہو، جس طرح غسل دینے والے کے سامنے مردہ ہوتا ہے کہ جس طرح چاہتا ہے اسے پلٹتا ہے، نہ وہ حرکت کر سکتا ہے نہ کوئی تدبیر”.
توکل کے درجات
امام ابو نعیم رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ” الحلیہ” میں ابراھیم خواص رحمہ اللہ تعالٰی کا قول نقل کیا ہے کہ، "توکل کے تین درجے ہیں (1) صبر، (2) رضاء (3) محبت۔ کیونکہ توکل کے بعد لازم ہے کہ بندہ اپنے توکل کے ذریعے جس پر توکل کیا ہے صبر کرے اور صبر کے بعد اللہ تعالیٰ کے ہر فیصلہ پر رضا لازمی ہے اور رضا کے بعد موافقت الٰہی میں اس کے ہر فعل سے محبت لازمی ہے”.
“A calamity that makes you turn to Allah is better for you then a blessing which makes you forget the remembrance of Allah”.
اللہ تعالٰی سے دعا کرتا ہوں کہ ہمارے اندر جزبہ شکر اور توکل کی صفت پیدا کرے۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔