تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم انسٹچوٹ پرے پورہ
رابطہ نمبر :6005465614
خواہشیں قتل کی گئیں، خواب فنا کیے گئے
یعنی بڑے جتن سے ہم، خود سے جدا کیے گئے
پیرویءِ ضمیر سے، اور تو کچھ نہیں ہُوا
کام خراب کر لیے، دوست خفا کیے گئے
اہل فارس کی تعریف رسول کریمﷺ نے اپنے متعدد فرامین میں بیان فرمائی ہے۔ اسی علاقہ سے ایک عظیم نام میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ کا بھی ہے۔اہل علم جانتے ہیں کہ وادی کشمیر میں اسلام کے اولین نقوش ڈالنے کا شرف بھی انہیں ہی حاصل ہے اگرچہ اس سے پہلے محمد بن قاسم رحمہ اللہ کے زمانے میں یہاں دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دئے جاچکے تھے اور پھر غزنوی دور میں بھی یہاں اسلامی لشکروں کی آمد آوری ہوئی تھی لیکن تاریخ کے اوراق اس بات پر شاہد ہیں کہ میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ نے یہاں دعوت و تبلیغ کو ایک اعلیٰ طریقہ بخشا اور باقاعدہ خانقاہوں کی بنیاد ڈالی گئی جو درحقیقت تعلیمی، دعوتی اور تربیتی ادارے ہوتے تھے۔ میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ تعالیٰ ۲۲ اکتوبر ۱۳۱۴ کے اندر ھمدان میں پیدا ہوۓ اور ۱۹ جنوری ۱۳۸۵ کے اندر اس دنیا سے انتقال کرگئے۔ شیخ رحمہ اللہ تعالٰی اپنے دور کے عظیم شاعر، فلسفی، صوفی بزرگ اور بعض مؤرخین کے نذدیک سائنسدان بھی رہے ہیں۔ وارد کشمیر کے بعد شیخ رحمہ اللہ تعالٰی نے الناسخ والمنسوخ پر ایک رسالہ بھی لکھا جو اس وقت بیرونی کتب خانوں کے اندر محفوظ ہے۔ میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ جس دور میں کشمیر وارد ہوۓ، یہ وہ زمانہ تھا کہ جب شرک و بدعات اپنے عروج پر تھے، اللہ کی بغاوت علانیہ کی جارہی تھی ، ایسی صورتحال میں کشمیری عوام کی رگوں سے شرک جیسی نجس صفت زائل کرنے کے لئے شیخ رحمہ اللہ کی عظیم تالیف اوراد فتیحہ جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
لفظ اوراد کئی ایک زبانوں میں مستعمل ہے جس کا معنی ہے "بار بار دہرانا، بار بار پڑھنا، کثرت سے پڑھنا کی زبان تر رہے ".فتیحہ” کا معنی اہل لغت کے یہاں، "کسی چیز پر فوقیت، برتری لینے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے”.چونکہ سیدنا عبدالرحمن بلبل شاہ رحمہ اللہ نے پیغام نبوت کی کرنیں اپنے شمع عبادت سے یہاں پہنچائی تھی لیکن اس نور کو مزید تقویت دینے کے لئے شیخ رحمہ اللہ نے قلیدی کردار ادا کیا۔ اوراد فتیحہ کے ساتھ ساتھ شیخ رحمہ اللہ کی کتاب ذخیرۃ الملوک، حل النصوص وغیرہ کافی معروف ہیں۔ الناسخ والمنسوخ و دیگر کتب کے قلمی نسخے آج بھی مختلف کتب خانوں میں محفوظ ہیں لیکن اوراد فتیحہ کا اصل نسخہ کے بارے میں راقم کی رسائی نہ ہوسکی۔
اوراد فتیحہ کا مطالعہ کرنے سے اہل انصاف پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر عوام الناس کو اہل السنہ والجماعہ کا تعارف دے کر عقیدہ کی باریکیوں سے ملت کو باخبر کیا اور ایک خوبصورت انداز میں اسلام کے روح کو ملت کے سینوں میں ضبط کردیا۔اوراد فتیحہ کے الفاظ اس بات پر شاہد ہیں کہ شیخ رحمہ اللہ نے توحید، ارکان اسلام، ارکان ایمان کے ساتھ ساتھ حب صحابہ کی تلقین اس وقت کی جب حقیقی اعتبار سے صحابہ کرام کا تعارف بھی ملت کو نہ تھا۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ اپنی سنن میں صحیح سند کے ساتھ اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا، "اللہ تعالی ہر سوسال کے بعد ایسے شخص کو بھیجتے ہیں، جو دین میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کرتا ہے،(امت میں پھیلی ہوئی بدعات ورسومات کو ختم کرتا ہے) یا اسلام کے روشن چہرے پر بدنما داغ دھبے لگ چکے ہوں، انہیں صاف کرتا ہے۔”.(سنن ابوداؤد، کتاب الملاحم) شیخ رحمہ کی خدمات اس حدیث کی عین تفسیر کررہی ہیں۔
صحیح صریح روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ جب کوئی فرد کفر کی ظلمات سے نکل کر اسلام کے نور کی طرف آتا تو تاجدار حرم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مغفرت طلب کرنے کا حکم دیتے، حالانکہ اسلام ماضی کے منکرات کو مٹا دیتا ہے۔ لیکن پھر بھی مغفرت کی طلب کرنے کا حکم دینا درحقیقت طلب استقامت ہے۔ ہدایت حاصل ہوجانے کے بعد اس نعمت عظمیٰ کی حفاظت کرنا مہم ہی نہیں بلکہ اہم بھی ہے۔ اسی سنت پر عمل کرکے شیخ رحمہ اللہ نے اپنے رسالہ کا آغاز طلب استغفار سے کیا۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جب انسان گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگا دیا جاتا ہے،اگر انسان اس گناہ کو چھوڑ دے اور اس پر توبہ واستغفار کرے تو اس کے دل کودھو کر چمکا دیا جاتا ہے”.(جامع ترمذی، وسندہ حسن)
شیخ رحمہ اللہ نے قرآنی سنت کو مدنظر رکھ کر ملت کو رب کائنات کا تعارف پیش کیا اور اس طرح جد الانبیاء سیدنا ابراھیم علیہ السلام کی سنت مطہر زندہ کی۔ وادی کے نومسلم شرک و کفر کی ذلالت سے نکل کر وحی الہی کی طرف سرجھکا کر آئے تھے، اب لازمی تھا کہ قوم کو رب تعالٰی کی معارفت کروائی جائے۔شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے روز اول سے ہی ملت کو ان تین سؤالوں کے جواب دینے کے لئے تیار کیا جو ہماری حیات کا خلاصہ ہے یا یوں کہا جائے مقصد حیات ہیں۔
یہ وہیں تین سؤال ہیں جو ہماری برزخی زندگی کی ابتدا پر کئے جائیں گے۔ اسی نقش قدم پر چل کر عرب دنیا کے مجدد شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے الاصول الثلاثہ تصنیف کرکے عرب دنیا میں ایک عظیم انقلاب برپا کردیا۔ ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص شام کے وقت کہا کرے ‘رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا’ ”میں اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی (و خوش) ہوں“، تو اللہ پر یہ حق بنتا ہے کہ وہ اس بندے کو بھی اپنی طرف سے راضی و خوش کر دے“۔(جامع ترمذی) اسلام کا تعارف دینے کے ساتھ ساتھ شیخ رحمہ اللہ نے قرآنی و مسنون اذکار کا ذکر کیا جو صحیح اور قوی اسناد سے ثابت ہیں، جن کے ورد سے انسان کا روح حیات حاصل کرتا ہے۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے الداء والدواء کے اندر طبیب ملت علامہ ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ، "علامہ ابن تیمیہ فجر کی نماز پڑھ کر طلوع شمس تک مصلی پر رہتے اور ذکر و اذکار میں مشغول رہتے اور فرمایا کرتے کہ یہی ہماری قوت کا راز ہے، یہی ہماری غذا ہے۔ "(الداء والدواء) فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "کیا میں تمہیں تمہارے اعمال میں سے سب سے اچھا عمل نہ بتاؤں جو تمہارے مالک کے ہاں بہتر اور پاکیزہ ہے، تمہارے درجات میں سب سے بلند ہے، تمہارے سونے اور چاندی کی خیرات سے بھی افضل ہے، اور تمہارے دشمن کا سامنا کرنے یعنی جہاد سے بھی بہتر ہے درآنحالیکہ تم انہیں قتل کرو اور وہ تمہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا : وہ عمل اللہ کا ذکر ہے۔‘‘(شعب الایمان، الادب المفرد، مستدرک حاکم)
مخلوق خدا کو خالق کائنات کی کبریائی و شہنشاہی اذہان پر نافذ کرکے کے لئے میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ملت کو اسماء حسنی کا تعارف کروایا۔ اوراد فتیحہ کا حرف حرف اللہ عزوجل کی حمد و ثنا، توحید الوہیت کا پرچار کررہا ہے۔ جو اس بات پر واضح نص ہے کہ شیخ رحمہ اللہ کی طرف بعض من گھڑت عقائد کی نصبت بالکل باطل ہے۔ شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ وراثت انبیاء کی حق ادائیگی کرنے کے لئے سرزمین کشمیر تشریف لائے تھے۔ شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ملت کو تاکید و تلقین کی کہ دنیا کے تمام ابواب سے خود کو کاٹ کر رب کا در مضبوطی سے پکڑنے والے بن جاؤ۔ یہی توحید ربانی و درس خودی ہے۔ بقول اقبال رحمہ اللہ
تری زندگی اسی سے تری آبرواسی سے
جورہی خودی تو شاہی نہ رہی تو روسیاہی
پیام دے گئی ہے مجھے بادِ صبح گاہی
کہ خودی کے عارفوں کاہے مقام بادشاہی
بے کسوں کی بے کسی، بے چینوں کی بے چینی، دور کرنے والا فقط رب تعالیٰ ہے۔ وارث عطا کرنے والا، رزق عطا کرنے والا، آسمانی تائید عطا کرنے والا، مشکلات میں سہارا عطا کرنے والا، پریشان حالوں کی پریشانی دور کرنے والا فقط رب تعالیٰ کی ذات مبارکہ ہے۔
اوراد فتیحہ کی بعض عبارات بالکل امام ابوجعفر طحاوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب عقیدہ طحاویہ کے مثل ہے جو اس بات پر دال ہے کہ شیخ رحمہ اللہ عقائد میں امت کے امام تھے۔بعض عبارات شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی شاہراہ آفاق کتاب، "الفتح الربانی” کے مثل ہے جو اس بات کو واضح کررہی ہیں کہ اولیاء کاملین کی دعوت ایک تھی، ان کی دعوت کا مرکزی نقطہ روۓ ارض پر قیام توحید تھا۔ فرمان ربانی ہے کہ، "اور البتہ تحقیق ہم نے ہر امت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو، پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہوئی، پھر ملک میں پھر کر دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا”.(سورہ نحل، آیت 128) شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مختصر مگر جامع رسالہ کے اندر ملت کو شرک اور اقسام شرک کی بھی تعلیم دی تاکہ ملت میں دوبارہ شرک کی حماقت ظاہر نہ ہو۔ اتنی قربانیوں کے باوجود کچھ وقت گزرتے ہی ملت پھر سے انہیں گمراہ کن عقائد کی طرف چل پڑی لیکن اللہ عزوجل کا شکر کہ جس نے میر سید علی ہمدانی رحمہ اللہ کے مشن کو آگے پہنچانے کے لئے عظیم معلمین کا ظہور فرمایا جن میں مفسر قرآن شیخ یعقوب صرفی رحمہ اللہ تعالیٰ کا نام قابل ذکر ہے۔ شیخ یعقوب صرفی رحمہ اللہ تعالیٰ ۱۵۰۲ء میں پیدا ہوۓ اور سن ۱۵۹۵ کے اندر اس دنیا سے چل پڑے۔
شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس رسالہ کے اندر ملت کو رہبانیت کے عقائد سے آزاد کرکے زھد جیسی ممدوح صفت سے مزین کردیا۔ دین کے ساتھ ساتھ شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی امور میں بھی ملت کی رہبری فرمائی تاکہ ملت اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکے۔ عصر حاضر میں سرزمین کشمیر پر مختلف جرائم کا ظہور ہوچکا ہے، منشیات کی دلدل میں نوجوان ملت ڈوب چکے ہیں، فحاشی، عریانی کے مراکز سجے ہوئے ہیں، قتل نفس یعنی خودکشی کی شرح بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے، بے دینی اور دین بیزاری کا دور دورہ ہے، ان تمام منکرات کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم خالق سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں، اللہ کے وعدوں پر کامل یقین نہیں رہا، نبوی ﷺ اسوہ سے لاتعلقی کا اظہار نوجوان ملت برملا کر رہے ہیں۔ انہیں روحانی امراض کی دوا کرنے کے لئے شیخ رحمہ اللہ نے اوراد فتیحہ تالیف کی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان کی زندگی میں اللہ تعالیٰ ہے، انسان کامیاب ہے، اور جب اللہ عزوجل انسان کی زندگی سے نکل جائے، انسان کے برے دن شروع ہوجاتے ہیں۔
شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ کا کشمیر آنا اور یہاں دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دینا علامہ اقبال رحمہ اللہ کے ان اشعار کی عملی تفسیر ہے۔۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیّری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دِین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رُہبانی
یہی ہے مرنے والی اُمّتوں کا عالَمِ پیری
عصر حاضر میں نوجوان ملت کو اس اسوہ پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔عصری علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم میں مہارت حاصل کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔الحمدللہ آج ایسے وسائل موجود ہیں کہ کوئی بھی فرد عذر پیش نہیں کرسکتا۔ ملت اسلامیہ جدید فتنوں کا مقابلہ کررہی ہے،فتنہ الحاد (Atheism) ، دہریت، آزادی نسواں (feminism) ، Islamophobia ، liberalism تیز رفتاری سے پھیل رہے ہیں۔ان فتنوں کا تعاقب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسلاف کی کھوئی ہوئی وراثت کو پھر سے حاصل کیا جائے۔اوراد فتیحہ میں شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس لئے سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا فاروق اعظم، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنھم کے اسماء ذکر کئے تاکہ ملت اسلامیہ کا رشتہ سلف صالحین سے مضبوط ہوجاۓ۔فرمان ربانی ہے کہ، "فَاِنْ اٰمَنُـوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْـتُـمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَّاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا هُـمْ فِىْ شِقَاقٍ ۖ فَسَيَكْـفِيْكَـهُـمُ اللّـٰهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ”.(پس اگر وہ بھی ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا گئے، اور اگر وہ نہ مانیں تو وہی ضد میں پڑے ہوئے ہیں، سو تمہیں ان سے اللہ کافی ہے اور وہی سننے والا جاننے والا ہے).
شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ نے اوراد فتیحہ میں بار بار ملت کو فکر آخرت کی طرف دعوت دی ہے۔
بار بار تاجدار حرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کی تاکید کی ہے تاکہ آخرت کی رسوائی سے ہم بچ سکیں۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً ، صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ عَشْرَصَلَوَاتٍ ، وَحَطَّ عَنْہُ عَشْرَ خَطِیْئَاتٍ ، وَرَفَعَ عَشْرَ دَرَجَاتٍ”.یعنی، "جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ، اس کے دس گناہ مٹا دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کردیتا ہے”.(صحیح الجامع) فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ، "كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ”.یعنی ، "دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور (قیامت کے دن) میزان میں بھاری ہوں گے اور پروردگار کو بہت پسند ہیں- سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ”.(صحیح بخاری)
People will not look forward to posterity who never look backward to their ancestors.
اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ شیخ رحمہ اللہ تعالیٰ کی قبر منور کردے اور ہمیں انکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عنایت فرماۓ۔۔۔ آمین یا رب العالمین